رای الیووم نے ہفتے کے روز صیہونی قیدیوں کی حوالگی کی تقریب کا حوالہ دیتے ہوئے ایک مضمون میں لکھا کہ غزہ کے خلاف جنگ کے بعد سے فلسطینی بیانیہ اسرائیل پر حاوی ہے۔
اخبار نے لکھا کہ اس علاقے پر صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملے کے ایک سال اور چار ماہ گزرنے کے بعد بھی مقاومت کی وجہ سے مسئلہ فلسطین عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ دشمن کو زیر کرنے کے لیے بہترین ہتھیار نفسیاتی جنگ ہے اور بغیر کسی مڈبھیر کے دشمن کو کچلنا مہارت کی انتہا ہے۔ حماس نے نہ صرف غزہ میں قابضین کو فوجی شکست سے دوچار کیا بلکہ میڈیا اور پروپیگنڈہ وار کے محاذ پر، مخصوصا خواتین صہیونی قیدیوں کو حوالے کرنے کی تقریب میں قابضین کو ایک مہلک دھچکا پہنچایا۔
اخبار کے مطابق اس تقریب کے انعقاد اور اس کے دوران مزاحمتی کارروں کی بھرپور موجودگی سے قابضین غصے میں ہیں اور انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
"غزہ میں 11 دن" نامی کتاب کے مصنف گادی عزرا نے اس حوالے سے کہا کہ حماس کا صیہونی قیدیوں کی حوالگی تقریب کے انعقاد کا مقصد عالمی برادری، غزہ کے عوام اورصیہونیوں پر اثر ا نداز ہونا تھا۔ حماس نے منصوبہ بند کارروائی کے ساتھ تین گروہوں کو نشانہ بنایا: اول، بین الاقوامی رائے عامہ، دوم، غزہ کے عوام اور تیسرے، اسرائیلی رائے عامہ۔
دوسری جانب صہیونی میڈیا معاریو کے تجزیہ کار لیلاخ سیگان نے کہا کہ غزہ میں خواتین قیدیوں کی حوالگی کے مناظر اس نفسیاتی دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں جو حماس صیہونیوں پر ڈال رہی ہے، اور یہ انتہائی پیشرفتہ سطح پر پہنچ چکا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ حماس کے ذرائع ابلاغ کو اس سلسلے میں کئی بڑے عرب نیٹ ورکس کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
آپ کا تبصرہ