اس سائنسی منصوبے کی سربراہ مریم نیکخواہ ہیں جنہوں نے بتایا کہ پارکنسنز بیماری اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی بیماری ہے جسے روکنے یا اس کی رفتار کم کرنے کا کوئی مؤثر علاج نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس دور کی سائنس میں صرف اس بیماری کے علائم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مریم نیکخواہ نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے پارکنسنز بیماری کی علامتوں کو نینو سطح پر بدن میں موجود مائع کے ذریعے تشخیص دینے کے طریقے کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طریقہ کار میں سونے کے سرخ رنگ کے نینو ذروں کو سینسنگ مالیکیول کے ذریعے بدن میں داخل کیا جاتا۔ اگر کسی شخص میں اس بیماری کے ابتدائی علائم موجود ہوں تو یہ نینو ذرے سرخ سے جامنی رنگ کے ہوجاتے ہیں اور اگر پارکنسنز کے علائم اس میں نہ ہوں تو سرخ رنگ کے ہی رہتے ہیں۔
مریم نیکخواہ نے کہا کہ اس تجربے کے نتائج کو بغیر کسی مائکروسکوپ کے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ سائنسی تحقیق، مریم نیکخواہ، مرضیہ موسی زادہ، عطیہ جہانگیری منش اور سیدہ فاطمہ زہرا سیدی نے تربیت مدرس یونیورسٹی کے بایوٹیکنالوجی گروپ کے تحت انجام دی ہے۔
آپ کا تبصرہ