18 جنوری کو سینٹرل لندن میں ہونے والے مظاہرے میں پرتشدد ردعمل کے بعد لندن پولیس پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ فلسطینی عوام کی حمایت میں ہونے والے مذکورہ مظاہرے کے دوران 70 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں بعض ایسی اہم شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے ریلی کے انعقاد میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
برطانوی ٹریڈ یونین کے متعدد رہنماؤں نے برطانوی وزیر داخلہ یوٹ کوپر کو ایک خط لکہا ہے، جس میں پولیس کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ ہونے والے پرتشدد سلوک کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط اسی طرح کی درخواستوں کی پیروی کرتا ہے جو اس سے قبل ارکان پارلیمنٹ، وکلاء اور برطانوی فلسطین کمیٹی کی جانب سے حکومت سے کی گئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی لندن پولیس کے جارحانہ ردعمل پر ایک بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے "آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے حق پر کریک ڈاؤن" قرار دیا۔ اس کے علاوہ، لندن سٹی کونسل میں گرین پارٹی کے نمائندے زوئے گاربیٹ نے بتایا کہ 150 سے زیادہ برطانوی شہریوں نے ان سے رابطہ کیا اور پولیس جھڑپوں، مظاہرین کی ناکہ بندی (کیٹلنگ) اور یہاں تک کہ بچوں، حاملہ خواتین اور بزرگوں کے خلاف تشدد کی اطلاع دی۔
لندن پولیس کے رویے پر تنقید اس وقت شدت اختیار کر گئی ہے جب مظاہرین 15 فروری کو فلسطین کی حمایت میں ایک اور بڑا مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی حکومت احتجاج کے حوالے سے سخت پالیسیاں اپنا کر ملک میں شہری آزادیوں کو محدود کر رہی ہے۔
آپ کا تبصرہ