الجزیرہ عربی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں پائی جانے والی بد اعتمادی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران امریکہ تعلقات کی طویل تاریخ مگر بدقسمتی سے یہ تاریخ امریکی جانب سے دشمنی کی حدتک انتہائی برے اور منفی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور الجزیرہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے اہم ترین نکات درج ذیل ہیں:
- دشمنی سے بھری ایک تاریخ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی کی تاریخ موجود ہے۔ یقیناً ان سب کی تلافی محض لفظوں سے نہیں ہو سکتی۔
-ہم نئی امریکی انتظامیہ کے موقف پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور دیکھیں کہ وہ ایران، جوہری معاہدے، یا ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کیا پالیسی اپنائیں گی، ہم ان کے مطابق ہی اپنی پالیسی مرتب کریں گے۔
-امریکی حکومت نے معاہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد بداعتمادی کے مزید ڈھیر لگ چکے ہیں اب یہ امریکی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ایران کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے۔
ایرانی قوم کے اثاثے جو امریکہ کی طرف سے مختلف مقامات پر منجمد کردیئے گئے ہیں، حالانکہ اس کے بارے میں ایک معاہدہ موجود تھا اور ایران نے اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کردی تھیں مگر امریکہ نے اس کے برخلاف عمل کیا۔ لہذا یہ وہ مثالیں اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو اعتماد سازی ممکن ہوسکتی ہے۔
ایران کا ایٹمی پروگرام ایرانی سائنسدانوں کے ذہن میں ہے، زمین پر نہیں۔ اس صلاحیت اور پروگرام کو بمباری یا فضائی حملوں سے تباہ نہیں کیا جاسکتا، دوسری بات، ایران کی جوہری تنصیبات ایک یا دو جگہوں پر نہیں ہیں، بلکہ بہت سی جگہوں پر بکھری ہوئی ہیں اور ان کی سیکورٹی بھی انتہائي محفوظ ہے، یہاں تک کہ فضائی راستوں سے بھی ان تک رسائی اور انہیں انقصان پہنچانا ممکن ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلے حملوں کے برعکس ایرانی جوہری تنصیبات پر تازہ حملوں کی صورت میں ایران کا ردعمل فوری اور فیصلہ کن ہوگا۔ امریکی اور اسرائیلی جانتے ہیں کہ ہم کن اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اس صورت میں ہم خطے میں ایک بھرپور جنگ میں داخل ہو جائیں گے، ایک ایسی تباہی جو کوئی نہیں چاہتا، نہ خطے میں اور نہ ہی خطے سے باہر۔
-ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں۔ جوہری ہتھیار ایران کے فوجی حکمت عملی کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ اپنی سلامتی کو دوسرے ذرائع سے یقینی بنا رہے ہیں اور جوہری ہتھیار ہمارے لیے حرام ہیں۔ سپریم لیڈر کی طرف سے واضح فتویٰ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سمیت عام تباہی پھیلانے والے تمام ہتھیاروں کی تیاری، نگہداشت اور استعمال حرام ہے، اور آپ حرام کے معنی بخوبی سمجھتے ہیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت ہے؟ ہاں یہ صلاحیت موجود ہے اور اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ لیکن کیا ہم جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ہرگز نہیں، اور ہمارا ایسا کوئی ارادہ تھا ہے نہ ہوگا۔
-ہم شام کے عوام کی طرف سے منظور شدہ کسی بھی حکومت کی حمایت کریں گے، ہم شام میں استحکام اور امن کو خطے کے استحکام اور امن کے لیے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ شام مسلسل عدم استحکام، کشیدگی یا خانہ جنگی، نسلی جنگ کا میدان بن جائے۔ اس سے شام ایک بار پھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائےگا۔ شام کا عدم استحکام ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں تک پھیلے گا۔ بلاشبہ ہم شام میں امن استحکام کے خواہاں اور اس کی ارضی سالمیت کا تحفظ چاہتے ہیں اور ہم شام کسی بھی حصہ پر اسرائيل سمیت کسی بیرونی طاقت کے قبضے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ہم شام کی تقسیم کے خلاف ہیں اور شام کی ارضی خودمختاری کا تحفظ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔
آپ کا تبصرہ