ان شخصیات کے قتل سے امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضے کے دوران، عراقی سائنسی اور برجستہ اکیڈمک شخصیات کی ٹارگیٹ کلنگ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جنہیں اسی طرح بلوائی صورتحال کی آڑ میں جان سے مار دیا گیا۔
عراق پر امریکی قبضے کے دوران بھی اس ملک کے سائنسی اور علمی سرمائے کی حیثیت رکھنے والے سائنسدانوں کو قتل کیا گیا جس میں واشنگٹن اور تل ابیب براہ راست ملوث تھے۔ آپ کو توجہ دلاتے ہیں سن 2005 کی امریکی وزارت خارجہ کی اس خفیہ رپورٹ کی جانب جس کا مدتوں بعد پردہ فاش ہوا۔ اس رپورٹ میں موساد کے عناصر کے ہاتھوں اور امریکہ کی براہ راست نگرانی میں عراق کے 730 برجستہ سائنسی شخصیات کی ٹارگیٹ کلنگ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
اس خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 530 عراقی سائنسدانوں اور 200 سے زیادہ یونیورسٹی پروفیسروں اور اکیڈمک شخصیات کا نام امریکہ اور صیہونی حکومت کی قتل کی فہرست میں شامل تھا جنہیں یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا گیا۔
دوسری جانب ایران اور مصر کے مسلم سائنسدانوں پر قاتلانہ حملوں کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ مسعود علی محمدی، مجید شہریاری، مصطفی احمدی روشن، داریوش رضائی نژاد اور محسن فخری زادہ وہ ایرانی سائنسی شخصیات تھیں جنہیں صیہونی حکومت نے بے رحمی سے قتل کیا۔
اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کے دوران فلسطین کے اس ٹکڑے پر 200 سے زیادہ سائنسی مراکز اور یونیورسٹیوں کو مسمار کردیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جولائی 2024 کی رپورٹ میں آیا ہے کہ غزہ کی تمام 19 یونیورسٹیوں کی 80 فیصد عمارتوں کو صیہونیوں نے راکھ کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ 103 اکیڈمک شخصیات کو قتل کیا ہے اور 90 ہزار یونیورسٹی طلبا کو زخمی یا معذور کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی یونیورسٹیوں میں خدمات پیش کرنے والے 94 یونیورسٹی پروفیسر، سیکڑوں ٹیچروں، ہزاروں اسکولی اور یونیورسٹی طلبا صیہونیوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں اور اب باری ہے شام کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ صیہونی وزیر اعظم نے اس سے قبل جاری ہونے والے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں شامی عوام سے کہا تھا کہ اسرائیل کو ان کے بقول صرف اسد اور شام کی حکومت سے مسئلہ ہے جبکہ شام کے عوام کی جانب صرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے گا، لیکن بشار اسد کی حکومت کے گرنے کے محض 2 سے 3 دن بعد، شام کے 400 مراکز کو نشانہ بنایا گیا جن میں فوجی مراکز کے علاوہ سائنسی اور سماجی ادارے حتی کہ بنیادی تنصیبات بھی شامل تھیں۔
اب ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقوام متحدہ جس نے صیہونیوں کے اس جنون آمیز اقدامات کے سامنے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اگر ایسے ہی حملے فرانس کی سوربن یونیورسٹی یا امریکہ کے ایم آئی ٹی کالج پر کیے گئے ہوتے تو اسی طرح خاموش تماشائی بنا رہتا؟
اگر امریکی اور یورپی سائنسدان ہلاک ہوتے تو اسی طرح لاپرواہی برتی جاتی؟
یہ واضح سی بات ہے کہ یونیورسٹی تعلیم اور تعلم کا مرکز ہے۔ مشرقی ثقافت اور اسلامی اور ایرانی تہذیب میں مسجدوں کی طرح تعلیمی مراکز بھی محترم ہیں اور کسی کو بھی ان کی بے احترامی کا حق حاصل نہیں ہے۔
لہذا اس وقت پوری دنیا کی سائنسی برادری سے توقع ہے کہ علم و انسانیت دشمن صیہونیوں کے اس رویے کو روکنے کی بھرپور کوشش کرے اور اسے نظرانداز ہونے نہ دے۔
یہ یاد رکھنے کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران، عراق، شام، فلسطین، لبنان اور عالم اسلام کے دیگر ممالک کے برجستہ سائنسدانوں کے قتل اور ان ملکوں کی سائنسی، صنعتی اور علمی مراکز اور تنصیبات کی تباہی کا اصل مقصد، ان ملکوں کی سائنسی، صنعتی اور معاشی ترقی کو روکنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
سامراجی طاقتوں کا ناپاک ارادہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں کو پسماندہ رکھ کر اور پیچھے دھکیل کر انہیں مغربی ممالک بالخصوص امریکہ سے مکمل طور پر وابستہ کریں اور اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی ممالک کی دولت کو لوٹ سکیں۔
بقلم وزارت اعلی تعلیم کے سماجی اور فرہنگی امور کے ڈائریکٹر جنرل "مہدی بادپا"
آپ کا تبصرہ