جنرل حسین سلامی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم شامی فوج کے بجائے جنگ کریں۔ کیا یہ معقول ہے کہ ہم تمام آئی آر جی سی اور رضاکار فورس کو دوسرے ملک کی جنگ میں مصروف کر دیں، جب کہ اس ملک کی فوج تماشائی بنی ہو؟
انہوں نے کہا کہ ایران حقیقت میں زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب ہمیں شام کے حقائق کو قبول کرنا ہے۔ ہم حقائق کو دیکھتے ہیں اور حقائق کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
جنرل سلامی نے کہا کہ حالات کے مطابق حکمت عملی تبدیل تبدیل ہوتی ہے۔ ہم ہمیشہ ایک ہی حکمت عملی سے دنیا کے بہت سے مسائل کو حل نہيں کر سکتے۔
جنرل سلامی نے مزید کہا: ہم مہینوں پہلے سے (مسلح گروہوں اور تکفیریوں کی نقل و حرکت سے) باخبر تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے ساتھیوں نے خفیہ حربوں کے ذریعے یہ بھی پتہ لگانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی کہ حملے کہاں کہاں سے ہونے والے ہيں اور یہ سب ہم نے شام کے سیاسی و فوجی حلقوں تک منتقل بھی کیا لیکن چونکہ وہاں عزم و ارادہ ، جنگ و مزاحمت کا جذبہ ہی نہيں تھا اس لئے وہ سب کچھ ہوا جس کا آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا۔
جنرل سلامی نے کہا کہ تکفیری تنظیمیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ کے خلاف مغربی حربہ تھا۔ تکفیری نظریات کے خلاف جنگ ، ایک عظیم خدمت تھی جو اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام نے پوری انسانیت کے لئے انجام دی ہے۔
پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر نے کہا : 13 سال کے اس عرصے کے دوران ہم نے کوشش کی کہ حزب اللہ لبنان اور فلسطینی تحریکوں کا ہم پر لاجسٹک حمایت اور جغرافیائی رابطہ کی نظر سے انحصار زیادہ سے زیادہ کم ہو جائے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائيں۔
آپ کا تبصرہ