ارنا کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے العربی الجدید کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ وہ شام کے حالات پر تبادلہ خیال کے لئے روس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے شام میں حالات کو پرسکون کرنے اور مستقل راہ حل کے لئے کافی کوششیں کی ہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں، ایران سے زیادہ شام کے پڑوسی ملکوں جیسےعراق، اردن اور ترکیہ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے شام اور ترکیہ کے روابط کی بحالی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اردوغان اور بشار اسد کی ملاقات کے لئے دمشق کی یہ شرط منطقی ہے کہ پہلے شام سے ترکیہ کی افواج نکل جائيں۔
انھوں نے کہا کہ اگر شام نے ایران سے فوج بھیجنے کی درخواست کی تو ہم اس پر غور کریں گے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کے اختیار میں نہ عرب ملکوں کے استقامتی گروہوں کی کمان ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ ایران کا کوئی تنظیمی رابطہ ہے، ہاں ایران ان کی امنگوں کا حامی ہے اور ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کرتا ہے ۔
انھوں نے اس انٹرویو کے ایک اور حصے میں سعودی عرب کے ساتھ روابط کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے روابط بہت اچھی سطح پر آگے بڑھ رہے ہیں اور اس کا ہمارے اور امریکا کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سید عباس عراقچی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس یورپ کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کے حوالے سے بد ظن ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
انھوں نے اسی کے ساتھ واضح کیا کہ تہران فی الحال واشنگٹن سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ ایسے مذکرات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
آپ کا تبصرہ