مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے مسلح افواج کے اعلی کمانڈروں کی موجودگی میں غزہ اور جنوبی لبنان کے دو محاذوں پر صیہونی حکومت کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: لبنان میں جنگ کا ان کا سب سے اہم مقصد مقبوضہ علاقوں کے شمال میں امن و سیکوریٹی کو مستحکم کرنا اور ان علاقوں کے باشندوں کی واپسی تھا ، جو نہ صرف یہ کہ پورا نہ ہوسکا ہے بلکہ اب صیہونی حکام کو بڑے پیمانے حیفا اور تل ابیب میں بھی خوف و خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف نے کہا کہ صیہونی فوج نے غزہ پٹی پر حملے کا سب سے اہم ہدف قیدیوں کی رہائی کو قرار دیا تھا لیکن اب الاقصی طوفان آپریشن کے 14 ماہ گزرنے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ان قیدیوں کے ٹھکانے کا کوئی نشان تک نہ مل سکا بلکہ کئی ماہ کی بھرپور جنگ کے بعد اس حکومت کے وزیراعظم کو قیدیوں کی رہائی کے لئے انعام کا اعلان کرنا پڑا۔
انہوں نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کے بارے میں بھی کہا کہ صیہونیوں نے اس اقدام سے اسلامی جمہوریہ کی تمام ریڈ لائنیں پار کر لی لیکن انہيں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج، اخلاقیات و دینی تعلیمات نیز عالمی قوانین کی بنیاد پر اپنی ارضی سالمیت کے دفاع کے لئے مناسب وقت میں پوری دور اندیشی و باریکی کے ساتھ جواب دے گا جو مختلف اور جارحین کو پچھتانے پر مجبور کرنے والا ہوگا۔
میجر جنرل باقری نے زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی سرزمین پر حملے کو ہرگز برداشت نہیں کرتا اور اس سلسلے میں بھی یقینا جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے " وعدہ صادق -2 " آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ جس طرح یہ دونوں کارروائیاں حکمت عملی اور اور حتی استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھیں، اسی طرح اسرائیل کی حالیہ جارحیت کا جواب مختلف ہوگا اور اس کی جس طرح سے منصوبہ بندی کی گئی ہے وہ صیہونی حکام کے تصورات سے پرے ہے۔
آپ کا تبصرہ