معروف تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے لبنان میں جنگ بندی کے بارے میں وسیع پیمانے پر ہوا دی جانے والی خبروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس حوالے سے میڈیا میں خبروں کے طومار اور اسکی بنیادی وجوہات میں حزب اللہ کی طاقت کے سامنے اسرائیلی حکومت کی بس بسی کو اہم وجہ قرار دیا۔
عطوان نے لکھا کہ جو بھی اسرائیلی اور امریکی میڈیا کی خبروں پر نظر رکھتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ قابض حکومت اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ بہت جلد متوقع ہے۔ حزب اللہ نے رسمی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور اس کی خاموشی کو اطمینان کی علامت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، البتہ انہوں نے اس سے قبل قابض حکومت اور اس کے پٹھووں کی طرف سے ایسی خبروں کی اشاعت کے بارے میں خبردار کیا تھا جو غلط مثبت ماحول پیدا کرتے ہیں اور انکا مقصد لبنانیوں کے درمیان غلط فہمی اور اختلافات کو جنم دینا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کی حالیہ صورت حال کے حوالے سے چند باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؛ سب سے پہلے، امید کی لہر جو اسرائیل کے سیاہ اتوار (black Sunday) کے بعد پیدا ہوئی، جس میں حزب اللہ کے مزاحمت کاروں نے تل ابیب، حیفا اور صفد کے مرکز میں اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اڈوں کی طرف 340 سے زیادہ راکٹ اور کئی خودکش ڈرون فائر کیے اور 40 لاکھ اسرائیلی پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور ہوئے، اور اس کے بعد بن گوریون ہوائی اڈے کو بند کر دیا گیا، اور پھر بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی، جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
دوسرا، اتنی تعداد میں اور اچانک مثبت خبروں کے شائع کرنے کا مقصد شمالی، مرکزی اور جنوبی مقبوضہ فلسطین میں پھیلی خوف و ہراس کی کیفیت کو ختم کرنا ہے، جہاں بستیاں سائرن اور راکٹ دھماکوں کی آواز سے سوتی اور جاگتی ہیں۔
تیسرا، شمال اور مغربی الجلیل کے شہروں بشمول عکا، حیفا، نہاریا اور صفد میں بڑی تعداد میں میزائل اور خودکش ڈرون حملوں کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے، بالخصوص اتوار کے روز آپریشنز کی تعداد 51 تک پہنچ گئی جس کے باعث سکول بند کرنے پڑے۔
چوتھا، حزب اللہ کے Pin Point accuracy والے راکٹوں کے حملے، جنہوں نے پہلی بار اشدود کی بندرگاہ، جو مقبوضہ فلسطین کی دوسری بڑی بندرگاہ ہے، اور تنازع کی تاریخ میں پہلی بار اس کے بحری اڈے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں اس کے اڈے کو بھاری نقصان پہنچا، اور یہ ایک بہت اہم پیش رفت تصور کی جارہی ہے کیونکہ جنوب میں اشدود تک پہنچنے والے میزائل ڈیمونا نیوکلیئر پاور پلانٹ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
رائے الیوم کے ایڈیٹر نے کہا کہ یہ میزائل اور ڈرون جو انتہائی تباہ کن صلاحیت کے حامل ہیں، دراصل نیتن یاہو کے جھوٹ کا ردعمل ہیں، جس نے حزب اللہ کی ٪80 سے زیادہ جنگی اور میزائل صلاحیتوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، اور کہا تھا کہ حزب اللہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوچکی ہے۔
اس سلسلے میں الجزیرہ نے صیہونی حکومت کے وزراء کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسی پیچیدہ اور پوشیدہ وجوہات موجود ہیں جو اسرائیل کو جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
آپ کا تبصرہ