ایران کی سلامتی خطے کی سلامتی سے الگ نہیں/ ایران کے خلاف دھمکیاں، پابندیاں اور دباؤ بے اثر ہیں

تہران- ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہمارے مذاکرات برائے مذاکرات نہيں ہوتے بلکہ بامقصد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات اور قومی سلامتی کے لیے ہوتے ہيں ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کی قومی سلامتی خطے کی سلامتی سے الگ نہیں ہے۔

ارنا نے اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سے موجودہ حکومت میں پہلی تفصیلی گفتگو کی ہے جس کے کچھ حصے پیش خدمت ہيں۔

حالیہ دنوں میں ہم نے ایران کے خلاف یورپی ممالک بالخصوص مغرب کی طرف سے  عام طور پر دباؤ میں اضافہ دیکھا ہے۔ یہ دباؤ بنیادی طور پر روس کو میزائل بھیجنے اور یوکرین کے ساتھ تنازع میں اس ملک کی حمایت کرنے کے بے بنیاد الزامات پر مرکوز ہیں۔ یوکرین کے صدر کے حالیہ بیان کے بارے میں جنہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ یوکرین کو ایران سے ہتھیار یا میزائل بھیجنے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

یوکرین کے صدر کے بیانات صرف ایک نمونہ  ہیں۔ بنیادی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران نے اس تنازعہ کے آغاز سے ہی اعلان کیا ہے اور ہمارا قطعی اور بنیادی عقیدہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر طاقت کا استعمال قابل قبول نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ممالک کو اپنے اختلافات کو پرامن اور سفارتی طریقوں سے حل کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یوکرین کا مسئلہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔

ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم کبھی بھی اس تنازعہ کا حصہ نہیں رہے ہیں اور شروع سے ہی ایران پر الزامات بے بنیاد تھے اور  یہ الزامات بعض یورپی ممالک کا اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ رہے ہيں۔

اس بار جو الزامات لگائے گئے ہیں ان  میں حالیہ انتخابات سمیت امریکہ کے اندرونی معاملات میں ایران کی مبینہ مداخلت  بھی ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

یہ الزامات واقعی گھسے پٹے ہو گئے ہیں۔ اگر ہم غور  سے دیکھیں تو پچھلے دو تین برسوں میں اور امریکی انتخابات کے دوران  ہمیشہ یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں  کہ ایرانی ہیکرز یا کچھ ایرانی عناصر امریکی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دعوے مکمل طور پر مضحکہ خیز لگتے ہیں۔

حالیہ امریکی انتخابات کے حوالے سے اس کے نتائج بہت معنی خیز تھے اور امریکی عوام نے پچھلی حکومت کو کیوں پسند نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ علاقائی تبدیلیوں کے  بارے میں امریکی پالیسیوں  سے عوام کی ناراضگی  کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پچھلے ایک سال کے دوران، امریکی رائے عامہ نے، یونیورسٹیوں اور عوامی حلقوں دونوں میں، غزہ کے لوگوں کے قتل عام اور نسل کشی کے خلاف کھل کر اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔

بہت سے امریکی فلسطین اور غزہ میں نسل کشی میں اپنی حکومت کے ملوث ہونے اور ایسے ہتھیار بھیجنے کے خلاف ہیں جو بے گناہ لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .