اس اجلاس میں، جو صیہونی جارحیت کے خلاف متحد موقف اختیار کرنے کے مقصد سے منعقد ہوا ہے ، بشار الاسد نے مزید کہا کہ یہ جرم ایک سال سے جاری ہے۔ گزشتہ سال، ہم نے جارحیت کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور اس کا نتیجہ لبنانی اور فلسطینی شہداء اور تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہے۔
انہوں نے 2002 میں عرب ممالک کے امن اقدام اور 1991 میں امن سربراہی اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم امن کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن بدلے میں ہمیں اپنوں کا خون پیش کیا جاتا ہے۔ نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے میکانزم اور ٹولز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ مارتے ہیں اور ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں، لہذا ہمیں اوزار بدلنا ہوں گے، اگر ہم اہداف پر متفق ہیں تو ہمیں حقیقت میں اپنی حکمت عملی پر بھی متفق ہونا چاہیے۔
بشار اسد نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو ان کا بنیادی حق، زندہ رہنے کا ہی حق حاصل نہیں ہے تو پھر فلسطینی قوم کے حقوق کی عمومی طور پر کیا حیثیت ہے؟ اس وقت ہماری ترجیح جارحیت، اجتماعی قتل اور نسلی تطہیر کو روکنا ہے۔
شام کے صدر نے مزید کہا کہ ہمیں اپنے آپشنز کا تعین کرنا ہوگا... کیا ہمیں مذمت کرنی چاہیے؟ یا بائیکاٹ؟ یا عالمی برادری سے مدد؟... ہمارا ایگزیکٹو پلان کیا ہے؟ ہم کسی ملک کا نہیں بلکہ استعماری حکومت کا سامنا کر رہے ہیں... ہم کسی قوم کا نہیں بلکہ ایسے غاصب آبادکار گروہ کا سامنا کر رہے ہیں جو زیادہ تر وحشی ہیں۔ مسئلہ ذرائع کا تعین کرتا ہے اور ذرائع کامیابی کی بنیاد ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آج کا اجلاس نتیجہ بخش ہوگا اور ہم درست فیصلے کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ