ارنا کے مطابق تہران کی شریف یونیورسٹی کے اساتذہ نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ ہم یونیورسٹی اساتذہ، اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2024 تک ایک سال کے اندر غزہ، غرب اردن اور جنوبی لبنان میں اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں نسل کشی اور دیگر ہولناک جرائم پراپنی گہری تشویش اور غم وغصے کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی شریف یونیورسٹی کے اساتذہ نے اس خط میں لکھا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں، منجملہ قرار داد 191، 242، اور 338 کو پامال کررہا ہے۔ اس حکومت نے 1948 سے گزشتہ تقریبا 76 برس کے دوران سرزمین فلسطین پر قبضہ کررکھا ہے، غیر قانونی کالونیاں تیار کی ہیں،اس ملک کی آبادی کا تناسب تبدیل کیا ہے، ابتدائی انسانی حقوق پامال کئے ہیں، مقامی باشندوں کو ان کے گھروں سے باہر کرکے ان کی زمینیں ضبط کرلی ہیں اور بے شمار قتل عام کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ اقدامات ، ان لوگوں کے جن کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے، اٹھ کھڑے ہونے اور ان کی مسلحانہ استقامت کے اصلی اور بنیادی عوامل ہیں۔
تہران کی شریف یونیورسٹی کے اساتذہ نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ ہم بے گناہ عوام کی نسل اور قومیت سے قطع نظر، ان کے قتل عام اور ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اورغزہ وغرب اردن سمیت مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت اوراس کی فوج کے وحشیانہ اقدامات کو برداشت نہیں کرسکتے اور ان اقدامات کو جنگی اقدامات کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ مکمل طور پر قتل عام ہے۔
تہران کی شریف یونیورسٹی کے اساتذہ نے مغرب کی آزادی کی تحریکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اپنے مغربی رفقائے کار( مغربی یونیورسٹیوں کے اساتذہ) سے کہا ہے کہ اگرآپ نازیوں کے قبضے کے دوران فرانسیسی چھاپہ ماروں، یونان، بلجیئم، اور ہالینڈ کی استقامتی تحریکوں اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یوگوسلاویہ کی مسلحانہ استقامت کو قانونی سمجھتے ہیں تو پھر فلسطین کی تحریک استقامت کو بھی درست اور صحیح سمجھئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی شریف یونیورسٹی کے اساتذہ نے اپنے خط کے آخر میں لکھا ہے کہ ہم سبھی امن پسند اور بیدار ضمیر انسانوں سے، ان کی قومیت سے قطع نظر، مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائيلی جرائم کی مذمت کریں۔ ہم سبھی محاذوں پر فوری جنگ بندی، اسرائیلی حکومت کے ہاتھوں انسانوں کا قتل عام روکے جانے، سبھی مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کے پیچھے ہٹنے اورغزہ، غرب اردن نیز لبنان میں اجتماعی قتل عام اورجنگی جرائم کے مرتکبین پر اسی طرح مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے ہیں جس طرح 1945 میں نازی جنگی مجرمین اور 1990 میں سربیا کے جنگی مجرمین پر مقدمہ چلایا گیا۔
آپ کا تبصرہ