انہوں نے استنبول میں منعقد ہونے والے (3+3) اجلاس کے موقع پر این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی جارحیت امریکہ کی مرضی کے بغیر ناممکن تھی اور استعمال ہونے والے تمام ہتھیار بھی امریکہ ہی اسرائیل کو دے رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ صیہونیوں کا اتحادی ہے اور اگر کوئی وسیع جنگ علاقے میں پیش آئی، تو امریکہ بھی اس جنگ میں کھنچ جائے گا جو کہ ہم نہیں چاہتے۔
سید عباس عراقچی نے صاف الفاظ میں کہا کہ ایران پر ہر طرح کی جارحیت، ہماری ریڈلائنوں کو پار کرنے کے مترادف ہے اور ایسی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران کے ایٹمی مراکز یا دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا بھی سخت جواب دیا جائے گا۔
وزیر خارجہ نے زور دیکر کہا کہ اسرائیل میں جن اہداف کو ٹارگیٹ کیا جائے گا ان کی نشاندہی ہوچکی ہے اور تل ابیب کو ہر جارحیت کا اسی انداز میں جواب ملے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ اس سے قبل ہم نے صیہونی حکومت کے کسی بھی اقتصادی یا شہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا تھا بلکہ صرف فوجی اہداف ہمارے ٹارگیٹ بنے لیکن اب ہم نے اپنے تمام ٹارگیٹ کی نشاندہی کر لی ہے اور ممکنہ جارحیت کا اسی انداز اور سطح پر جواب دیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی علاقائی دورے پر ہیں جہاں انہوں نے مصر، اردن اور ترک حکام سے تفصیلی ملاقات کی اور علاقائی امن و سلامتی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران گزشتہ ایک سال سے غزہ اور لبنان مین صیہونی حکومت کے وحشیانہ اقدامات کو سفارتی سطح پر بھی اٹھائے ہوئے ہے اور اس جنگ کی روک تھام اور علاقے میں قیام امن کے لئے کوشاں ہے۔
آپ کا تبصرہ