رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یہ بات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور 38ویں وحدت اسلامی کانفرنس میں شریک مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امت سازی اور ملت اسلامیہ کی تشکیل تعلیمات نبوی کا اہم درین درس ہے اور آج عالم اسلام کو آج یہ سبق پھر سے دوہرانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیغام اتحاد کو دنیا میں سچا سمجھا جائے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے درمیان اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب کا کہنا تھا کہ " آج ہمیں اس سبق کی ضرورت ہے، آج ہمارے پاس اسلامی امت کا فقدان ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک ہیں، دنیا میں تقریباً دو ارب مسلمان رہتے ہیں، لیکن انہیں امت کا عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ ان کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے اور ان کی سمتیں بھی الگ ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ امت سے مراد لوگوں کا گروہ ہے جو ایک ہی سمت میں اور ایک ہی مقصد کے ساتھ آگے بڑھتا ہے لیکن ہم ایسے نہیں ہیں، ہم تقسیم ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کا تسلط اس تقسیم کا ہی نتیجہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کہا کہ اس تقسیم کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک محسوس کرتا ہے کہ اگر وہ خود کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے امریکہ پر انحصار کرنا ہوگا۔ اگر ہم متفرق نہ ہوتے تو ایسا ممکن نہیں تھا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کی توانائیوں سے کام لیکر ایک یونٹ بنا سکتے ہیں جو آج دنیا کی تمام طاقتوں سے زیادہ طاقتور ہوگا۔
ان کا کہنا تھا " ہم شانہ بشانہ کھڑے ہوکر، ہاتھوں ہاتھ ڈالکر ایک دوسرے کی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، باہمی تعاون کے ذریعے ایک یونٹ بناسکتے ہیں اور یہ یونٹ آج کی دنیا کی تمام طاقتوں سے زیادہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ ایک زمانے میں ایسا ہی تھا۔"
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے مسلم سیاستدانوں، علما، دانشوروں، ادبیوں، شاعروں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر زور دیا کہ وہ امت کے تشکیل کے فریضہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
رہبر نقلاب اسلامی نے کہ " جو لوگ اس تحریک کو تقویت دے سکتے ہیں وہ عالم اسلام کی خواص ہیں۔یعنی آپ سیاست دان، علماء، سائنسدان، ماہرین تعلیم، بااثر طبقے، مفکرین، شاعر، ادیب، سیاسی اور سماجی تجزیہ کار، یہ سب اس تحریک پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔"
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ" اگر آپ فرض کر لیں کہ دس سال تک عالم اسلام کا پریس مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرے گا، مضامین شائع کرے گا، شاعر نظمیں لکھیں گے، تجزیہ نگار تجزیہ لکھیں گے، یونیورسٹی کے پروفیسرز صاحبان تشریح کریں گے، علمائے دین (اتحاد کا) حکم دیں گے تو یقیناً آنے والے دس برس کے دوران حالات بدل جائیں گے۔
آپ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جب قومیں بیدار ہوجائيں گی اور اتحاد میں دلچسپی لیں گی تو حکومتیں بھی اس جانب قدم بڑھانے پر مجبور ہوں گی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اتحاد کے قیام اور امت اسلامیہ کی تشکیل کو سخت دشمنوں کا بھی سامنا ہے اور امت کی اندرونی خرابیوں بالخصوص مذہبی اور دینی اختلافات کو ہوا دینا دشمن کا اہم ترین ہتھیار ہے تاکہ امت واحدہ کی تشکیل کو روکا جاسکے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امام خمینی رح نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل جب شیعہ سنی اتحاد پر زور دیا تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ عالم اسلام کی طاقت اتحاد میں مضمر ہے۔
آپ نے غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور شام میں صیہونیوں کے کھلم کھلا اور گھناونے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے حملوں کا نشانہ نہیں بلکہ عوام ہیں کیونکہ جب وہ فلسطینی مجاہدین کو نشانہ بنانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے اپنے جاہلانہ اور خبیثانہ غصے کو بچوں، عورتوں اور اسپتال کے مریضوں پر نکالنا شروع کردیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی دنیا کے اپنی داخلی طاقت کے استعمال میں ناکامی کو اس تباہ کن صورتحال کی وجہ قرار دیا اور صیہونی حکومت کے ساتھ اقتصادی تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے کی ضرورت پر ایک بار پھر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اقتصادی تعلقات مکمل طور پر منقطع کریں اور سفارتی تعلقات میں مکمل کمی لاتے ہوئے، اس کے خلاف سفارتی اور میڈیا وار کو مضبوط بنائيں اور کھل کر ثابت کریں وہ فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔
آپ کا تبصرہ