انہوں نے عراقی کردستان میں صدر ایران مسعود پزشکیان کے غیر معمولی استقبال کا ذکر کرتے ہوئے اسے صدر ایران کی سفارتکاری کا کمال قرار دیا اور کہا کہ صدر کےاس دورے سے ہم کئی برس آگے ہو گئے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ حالانکہ سرکاری مذاکرات فارسی میں تھے لیکن کچھ مختصر سی باتیں کردی زبان میں بھی ہوئیں جس کی وجہ سے پورے علاقے میں کافی جوش و جذبہ پیدا ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ برسوں میں کیا جانے والا ثقافتی کام ، صدر ایران نے کچھ گھنٹوں میں کر دیا۔
انہوں نے کہا: جناب بارزانی نے کہا کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہيں تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ایران کے صدر کو ہم کردی زبان میں خوش آمدید کہیں گے اور وہ بھی ہمیں کردی زبان میں جواب دیں گے۔ عراقی کردستان کا علاقہ، ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں وسعت کے لئے کافی آمادہ ہے اور سلیمانیہ شہر ہمارے لئے اس علاقے میں داخلے کا دروازہ ہو سکتا ہے۔
وزير خارجہ نے ایران و عراق کے درمیان سیکوریٹی معاہدے کے بارے میں بھی کہا کہ عراق کی مرکزی حکومت کے تعاون سے کئی اقدامات کئے گئے ہيں اور اس کے کچھ حصے پر عراقی کردستان میں بھی عمل ہوا ہے اور ہمیں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ عراقی کردستان سے ایران کی سرحدوں کو کوئی خطرہ نہيں ہوگا اور جو عناصر خطرہ پیدا کريں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر ایران کی شرکت پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ جنرل اسمبلی کا اجلاس اپنا موقف بیان کرنے کے لئے بہترین موقع ہے اور ایران اس موقع سے فائدہ اٹھائے گا۔ صدر ایران تقریر بھی کریں گے اور اسی طرح اس ملک میں رہنے والے ایرانیوں اور دیگر ادیان کے پیروکاروں اور میڈیا کے ذمہ داروں سے بھی ملاقات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ اس موقع پر صدر ایران اسی طرح ایشیائی اور اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
وزير خارجہ نے اس گفتگو میں یہ بھی کہا کہ ایران علاقے میں جاری مزاحمت کی بدستور مکمل حمایت کرے گا اور نئی حکومت کی پالیسی، مزاحمتی محاذ کی وسیع حمایت ہے ۔ غزہ جیسے چھوٹے علاقے پر اسرائیل ایک سال سے پوری طاقت سے حملے کر رہا ہے لیکن حماس کے خاتمے کا اس کا مقصد آج تک پورا نہيں ہو سکا ہے اور آج وہ حماس کے ساتھ مذاکرات پر مجبورہے اور صیہونی حکومت کی یہ کمزور اور ناکامی در اصل اس کے حامی امریکہ کی ناکامی ہے۔ ایران مزاحمت کی حمایت کررہا ہے اور ان حلقوں کی سازش بھی ناکام بنا رہا ہے جو علاقے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے در پے ہيں ۔
انہوں نے عراق میں انتخابات کے سلسلے میں کہا کہ ہمارے لئے فرق نہيں ہے کہ امریکہ میں کون صدر بنتا ہے۔ ہمارے یہ یورپ یا امریکہ میں کون اقتدار میں آتا ہے اس سے فرق نہيں پڑتا، ہمارے لئے ہمارے مفادات اہم ہیں اور ہم اسی بنیاد پر مذکرات کریں گے۔
آپ کا تبصرہ