منگل کی شام اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مجلس وحدت مسلمین کے عہدیداروں اور امامیہ اسٹوڈنٹس کے کارکنوں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ مظاہرین نے پاراچنار شہر میں نہتے شہریوں کے خلاف تکفیری گروہوں کی مسلح کارروائیوں کی مذمت کی۔
شدت پسندوں اور تکفیریوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے پاراچنار شہر کی تشویش ناک صورتحال پر پاکستانی حکومت اور فوج سے فوری ردعمل کا مطالبہ کیا ۔
مقررین نے کہا کہ زمین کی ملکیت کا تنازعہ ایک خطرناک فرقہ وارانہ تنازعہ بن چکا ہے اور ہم بے دفاع شہریوں کے خلاف انتہا پسند عناصر کی پرتشدد اور مسلحانہ حملے دیکھ رہے ہیں۔
اس اجتماع میں پاکستانی شخصیات نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گرد عناصر پاراچنار شہر میں بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی فرقوں کے درمیان امن و رواداری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، اس ملک کی 30 سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد، پاکستان کی قومی یکجہتی کونسل کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے ایک بیان میں پاراچنار میں شدت پسند قوتوں کے ہاتھوں عام شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا: "کچھ عناصر امن و استحکام کی فضا کو تباہ کرنے اور خاص طور پر صبر و رواداری کی پیروی کرنے والوں کا چین و سکون چھین لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے پاکستان کے سیکورٹی اداروں، وفاقی حکومت اور ریاستی حکومت کے حکام سے کہا کہ وہ پاراچنار کی صورتحال سے جلد از جلد نمٹیں کیونکہ بصورت دیگر اس کے خطرناک نتائج پاکستان کے دیگر علاقوں میں عدم استحکام کا باعث بنیں گے اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
مجلس وحدت المسلمین نے اعلان کیا کہ ہے پاراچنار میں ایک ہفتے کی کشیدگی کے دوران کم از کم 40 شیعہ شہید ہوئے ہیں۔
آپ کا تبصرہ