گراہم فلر نے ویب سائٹ "responsiblestatecraft" (Quincy Institute - Quincy for Responsible Statecraft کی آن لائن پوسٹ میں لکھا کہ تہران اور منامہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا معاہدہ اس سے زیادہ اہم ہے جتنا کہ پہلی نظر میں لگتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی بحریہ کا پانچواں بحری بیڑا بحرین میں تعینات ہے جس کے ذمہ پورا خلیج فارس، بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب شامل ہیں۔
CIA کے سابق افسر نے کہا کہ بہت پہلے سے، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پالیسی کا مقصد ایران کے خلاف علاقائی ممالک پر مشتمل فوجی اور سیاسی اتحاد بنانا ہے۔ اس وجہ سے، بحرین اور ایران کے درمیان کسی بھی طرح کے تعلقات واشنگٹن کے لیے تشویش کا باعث ہوں گے، اور وہ اسے روکنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
فلر نے یاد دہانی کروائی کہ امریکیوں کو ایران مخالف حکمت عملی میں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب ریاض اور تہران نے 2023 میں چین کی ثالثی سے سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کئے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ بحرین کے تعلقات کی بحالی کی صورت میں خلیج فارس میں جیوپولیٹیکل تبدیلیاں زیادہ واضح ہو جائیں گی۔
اس مغربی ماہر نے کہا کہ سعودی عرب کی رضامندی کے بغیر، جس نے پہلے تہران کے ساتھ تعلقات استوار کیے تھے، بحرین شاید ہی ایران کے قریب ہوتا۔
تاس کے مطابق جنوری 2016 میں ریاض کی طرح منامہ نے بھی ایران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے کے بعد تہران سے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
آپ کا تبصرہ