اس امریکی اخبار نے ایران میں 2024 کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں کئی دہائیوں سے جاری امریکی دباؤ کو بے اثر کرتے ہوئے چین اور روس کے ساتھ اتحاد کر کے برسوں کی تنہائی سے باہر نکل آیا ہے اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں سردی آگئی ہے جبکہ دوسری جانب چین کو تیل کی فروخت اور روس کے ساتھ فوجی تعاون نے ایران کو مالی اور سفارتی طور پر مضبوط کیا ہے۔
تہران مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کی کئی دہائیوں کی غلطیوں اور خطے کے حوالے سے مختلف امریکی حکومتوں کی پالیسیوں میں اتار چڑھاؤ کا بھی مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔
اس رپورٹ کے تسلسل میں اس دعوے کے ساتھ کہ "تہران 1979 میں اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد سے اب تک کسی بھی دوسرے وقت کے مقابلے میں اسوقت مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادیوں اور مفادات کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے" لکھا ہے کہ ایران نے اپریل کے مہینے میں اپنی سرزمین سے براہ راست اسرائیل کو نشانہ بنایا۔
خطے میں ایران کی فوجی موجودگی کے اثرات، اس بات سے قطع نظر کہ ایران کے انتخابات کے دوسرے مرحلے یا نومبر کے وسط میں ہونے والے امریکی انتخابات میں کون جیتے، اہم مسئلہ رہے گا۔
امریکی قدامت پسندوں کے سے تعلق رکھنے والے اس اخبار نے مزید کہا کہ ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت مغرب کی ناکامی کی علامت ہے۔ تہران کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے والی مغربی پابندیوں کا اب کوئی اثر نہیں رہا ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کے روس اور چین کے ساتھ مضبوط تعلقات نے تہران کے ساتھ سفارت کاری کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ