صیہونی حکومت کے جنگی اخراجات میں اضافے کے لیے تمام صلاحیتوں کو بروئےکار لانا ضروری ہے، علی باقری کنی

تہران (ارنا) ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ نے حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ سے ملاقات میں کہا کہ صیہونی جارحیت اور جرائم کے خاتمے اور انکے جنگی اخراجات کو مزید بڑھانے کے لیے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول میں مزاحمت کو قابضین کے خلاف اندرونی مسلح مزاحمت تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔

ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری نے دوحہ میں فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیہ سے ملاقات کی۔

اسماعیل ھنیہ نے علی باقری کو عید الاضحی کی مبارکباد پیش کی اور شہید صدر سید ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا اور فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی حمایت میں ان کے کردار کو سراہا۔

اس ملاقات میں باقری نے کہا کہ صیہونیوں کے جنگی اخراجات کو مزید بڑھانے کے لیے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ناگزیر ہے اور مزاحمت کو غاصبوں کے خلاف مسلح مزاحمت تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ قانونی اور سیاسی مزاحمت کیساتھ دنیا بھر میں عوامی سفارت کاری کے میدان میں بھی کام کرنا چاہیے۔

حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے رہبر انقلاب اسلامی، ایرانی حکومت و عوام اور سفارتی اداروں کی طرف سے فلسطینی قوم اور مزاحمت کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور نسل کشی کے جرائم کے باوجود فلسطینی عوام کی مزاحمت آج بھی مضبوط ہے اور وہ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے اندر سیاسی خلفشار، اس حکومت کی علاقائی اور بین الاقوامی بدنامی اور انکے جرائم کے خلاف مغربی دنیا بالخصوص امریکہ میں رائے عامہ کی بیداری، لبنان کے مزاحمتی محاذ میں ہونے والی پیشرفت اور یمن اور خطے کی عوام کی ناقابل تبدیل سیاسی پختگی طوفان القصی آپریشن کی دین ہے۔

ھنیہ نے کہا کہ غزہ کے عوام کے خلاف 9 ماہ کی صیہونی فوجی جارحیت اور نسل کشی کے بعد بھی صیہونی فوج اپنے اہداف حاصل کرنے میں عملی طور پر ناکام رہی ہے۔

ھنیہ نے غزہ کے خلاف جنگ کو روکنے کے لیے پیش کیے گئے سیاسی منصوبے کے حوالے سے حماس کے بنیادی موقف کی وضاحت کی اور واضح کیا کہ حماس فلسطینی عوام کے تمام مطالبات کو پورا کرنے والے کسی بھی منصوبے کا خیرمقدم کرتی ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .