ارنا کی رپورٹ کے مطابق، مشاہد حسین سید، جنہوں نے حال ہی میں روس میں منعقد ہونے والے برکس کے اجلاسوں میں شرکت کی ہے، کہا کہ رکن اور مہمان ممالک نے بین الاقوامی تعلقات کو مزید جمہوری بنانے اور تسلط کے نظام کے خلاف اہم بات چیت کی اور باہمی احترام اور مساوات کے فروغ کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی گئیں انہیں نافذ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریکس کا پلیٹ فارم بین الاقوامی مسائل کے غیرعسکری حل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔
مشاہد حسین سید نے تاکید کرتے ہوئے کہا برکس گروپ مقامی کرنسیوں کے حامل ممالک کے درمیان تجارت کی حوصلہ افزائی کرنے، ڈالر پر انجصار کم کرنے اور امریکی ڈالر کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کا پلیٹ فارم ہے جسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر کے اوائل میں، پاکستان کی وزارت خارجہ نے برکس گروپ میں شامل ہونے کی درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے برکس کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کثیر الجہتی فورم قرار دیا تھا۔
پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کا مشرقی ہمسایہ ملک ہے اور یہ دو پڑوسی مسلم ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن ہونے کے ساتھ ساتھ برکس میں موجودگی سے دو طرفہ اور کثیر جہتی تعاون خاص طور پر تجارت کو مائنس ڈالر کے لیے ایک وسیع میدان رکھتے ہیں۔
چونکہ برکس تنظیم کے اہم ارکان ایک دوسرے کے ساتھ میکرو بزنس انٹریکشن میں ڈالر کو کم کرنے کے لیے پرعزم ہیں لہذا پاکستان بھی خطے اور دنیا میں معاشی تبدیلیوں کو دیکتھے ہوئے ڈالر کے دباؤ کو کم کرنے اور غیر ملکی تجارت میں مقامی کرنسیوں کے استعمال کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، روس، چین، برازیل، ہندوستان، جنوبی افریقہ، مصر، ایتھوپیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے گروپ کو برکس کہا جاتا ہے۔
روس میں 10 جون کو ہونے والے برکس اجلاس کے اختتام پر، برکس گروپ کے وزرائے خارجہ نے رکن ممالک کے درمیان تجارتی اور مالیاتی تبادلے میں قومی کرنسی کے استعمال کو بڑھانے اور ڈالر کی اہمیت کم کرنے پر زور دیا۔
آپ کا تبصرہ