ارنا کے مطابق ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف غلام حسین اسماعیلی نے بتایا کہ ہم 19 مئی کی صبح تہران سے تبریز روانہ ہوئے اور 7 بج کر 10 منٹ پر تبریز پہنچےاور وہاں سے ہیلی کاپٹر سے اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ ہم پہلے آق بند گئے، وہاں ٹرانزٹ روڈ کا معائنہ کیا، اس کے بعد تقریبا 9 بجے صبح ہیلی کاپٹر سے خدا آفرین اور پائین دست میں قیزقلعہ سی ڈیم پہنچے۔
انھوں نے بتایا کہ موسم بہت اچھا تھا۔ ہمارے ہیلی کاپٹر وہاں اترے اور ایران اورجمہوریہ آذربائیجان کے مشترکہ پروجکٹ کا افتتاح کیاگیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہم نے نماز ظہرین وہاں پڑھی، اس کے بعد صدر آیت اللہ رئیسی نے عوام سے ملاقات کی۔ اور پھر نماز ظہرین کے ایک گھنٹے بعد ہم تبریز کی جانب ایسی حالت میں روانہ ہوئے کہ موسم بہت اچھا تھا اورموسم کی خرابی کے آثار بالکل نہیں تھے۔
ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف غلام حسین اسماعیلی نے بتایا کہ 45 منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد سونگون کان کے علاقے میں آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا نظرآیا۔ کہرا بالکل نہیں تھا، اس درے کے ایک محدود علاقے میں بادل کا ٹکڑا موجود تھا لیکن پرواز کی بلندی کی سطح ایسی تھی کہ ہم بادل سے روبرو ہوئے حتی بادلوں سے نیچے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس منزل پر صدر کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے کمانڈر کی حیثیت سے بقیہ دونوں ہیلی کاپٹروں کےلئے اعلان کیا کہ بادل کے اوپر پرواز کریں۔ بادلوں کے اوپر 30 منٹ کی پرواز کے بعد ہم متوجہ ہوئے کہ صدر کا ہیلی کاپٹر جو بیچ میں پرواز کررہا تھا، نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم نے صدر کا ہیلی کاپٹر نہیں دیکھا۔ ہماری پرواز معمول کے مطابق تھی، کسی قسم کی کوئی لرزش نہیں تھی ، ہم نے اپنی پرواز جاری رکھی اور پھر بادل ختم ہوگئے۔
غلام حسین اسماعیلی نے بتایا کہ جب ہم نے دیکھا کہ صدر کا ہیلی کاپٹر نہیں آیا تو ہمارے ہیلی کاپٹر کےپائلٹ نے ٹرن لیا اور واپس ہوا۔ ہم نے پوچھا کہ واپس کیوں ہوئے ؟ اس نے کہا کہ اصلی ہیلی کاپٹر نہیں آیا۔ ہم نے پوچھا آخری بار ریڈیو رابطہ کب ہوا تھا؟ اس نے کہا کہ ایک منٹ تیس سیکنڈ قبل۔
انھوں نے بتایا کہ ہم صدر کے ہیلی کاپٹر کی تلاش میں واپس ہوئے،اس حصے میں بادل اتنے گہرے تھے کہ ہمیں اپنے نیچے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ بہت کوشش کی لیکن ریڈیو رابطہ برقرار نہ ہوسکا۔ ایک دو منٹ بعد ہم سونگون کان کے علاقے میں ںیچے اترے اور تحقیق شروع کی۔
ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف نے بتایا کہ وہاں بلندی پر موبائل فون کا سگنل تھا لیکن درے میں نیچے سگنل نہیں تھا۔ صدر کے ساتھ پرواز کرنے والوں، حسین امیر عبداللّہیان اور صدر کے سیکورٹی چیف سے مسلسل رابطہ برقرار کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ بہت کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ پھر ہم نے صدر کے ہیلی کاپٹر کے کیپٹن مصطفوی کو فون کیا تو جناب آل ہاشم نے جواب دیا اور کہا کہ میری حالت اچھی نہیں ہے، درے میں گرگیا ہوں اورکوئی دوسری خاص بات نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ میں نے پھر اسی نمبرپر فون کیا اور جناب آل ہاشم نے جواب دیا ۔ ہم نے پوچھا آپ کی حالت کیسی ہے؟ کہا میری حالت اچھی نہیں ہے ۔ درد تھا۔ انھوں نے کہا پتہ نہیں کیا ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ درختوں کے بیچ میں ہوں۔ ان کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ "کسی کو نہیں دیکھ رہا ہوں کوئی میرے اطراف میں نہیں ہے۔" اور پھر انھوں نے جنگل کی خصوصیات بتائیں ۔
غلام حسین اسماعیلی نے کہا کہ ہم سمجھ گئے کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوگیا ہے۔ کان میں ایمبولنس کے وسائل تھے۔ وہ لوگ فورا اس علاقے کی طرف روانہ ہوئے جس کا ہم لوگوں نے اندازہ لگایا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ہم نے تین چار بار جناب آل ہاشم سے بات کی۔ حادثے کے تین گھنٹے بعد تک انھوں نے جواب دیا اس کے بعد کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب ہم حادثے کی جگہ پہنچے تو آیت اللہ رئيسی اور ان کے ساتھیوں کے جنازوں کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ حادثہ ہوتے ہی جاں بحق ہوگئے تھے لیکن آل ہاشم حادثے کے چند گھنٹے بعد تک زندہ تھے۔
ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف نے کہا کہ ہم اوپر سے کنٹرول کررہے تھے، نہ کسی دھماکے کی آواز تھی ، نہ دھواں تھا اور نہ ہی آگ نظر آئی۔ جنگل کے محافظین اور پولیس والوں سے کہا کہ گاؤں والوں سے پوچھیں لیکن کسی نے نہ کچھ دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی آوازسنی تھی۔البتہ یہ جنگلی علاقہ ہے، دیہی آبادیاں محدود ہیں اور اکثر ساکنین سے خالی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آیت اللہ آل ہاشم جب مجھ سے بات کررہے تھے تو چوٹ کی وجہ سے ان کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں تھی اور انہیں یہ بالکل نہیں معلوم تھا کہ حادثہ کیا تھا اور کیا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جو کچھ کہا گیا ہے اس پر سو فیصد اطمینان نہیں کیا جاسکتا؛ جب ہم اس علاقے میں پہنچے تو ہمیں ایسی کوئی جگہ نظر نہیں آئی جہاں پہلے آگ لگی ہو۔
غلام حسین اسماعیلی نے کہا کہ جب ہم حادثے کے علاقے میں پہنچے تھے اورہمارا ہیلی کاپٹر نیچے اترا تھا تو اس کے بعد تقریبا 2 گھنٹے تک موسم اچھا تھا۔ ایسا تھا کہ ہم اپنی پرواز جاری رکھتے تو تبریز پہنچ جاتے۔ لیکن جائے حادثہ پر اترنے کے ایک دو گھنٹے بعد، تقریبا دو پہر بعد لگ بھگ 3 بجے سے موسم بالکل بدل گیا اور جب ہلال احمر اور مسلح افواج کے امدادی دستے پہنچے ہیں تو کہرا چھا چکا تھا ۔
انھوں نے بتایا کہ یہ جو فوٹیج میں کہرا نظر آتا ہے وہ حادثے کے دو تین گھنٹے بعد کی صورتحال ہے۔
ایوان صدر کے چیف آف اسٹاف نے کہا کہ یہ جو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے موسمی حالات میں پرواز کی اجازت کیوں دی گئ ؟ میں موسمی حالات کا اسپیشلسٹ نہیں ہوں ، لیکن جو میں اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے ، پرواز کے لئے حالات معمول کے مطابق تھے، صرف ایک چھوٹے سے محدود علاقے میں بادل تھا لیکن یہ بات کی کہ پرواز انجام پانی چاہئے تھی یا روک دینے کی ضرورت تھی، اس بارے میں اسپیشلسٹ بتاسکتے ہیں میں نے جو دیکھا ہے وہ بیان کردیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں سبھی عوامی اور امدادی دستے ساری رات جو وسائل بھی ان کے پاس تھے، انہی کے ساتھ جائے حادثہ کی تلاش میں مصروف رہے ۔ میں ہیلی کاپٹر اور شہیدوں کے جنازے ملنے تک علاقے میں ہی رہا۔ سرچ آپریشن میں وقت لگا لیکن حالات ایسے تھے کہ اس سے زیادہ کوشش ممکن نہیں تھی۔ حادثے کے بعد کچھ دیر تک صرف آیت اللہ آل ہاشم زند ہ رہے اور دیگر سبھی شہدا حادثے کے فورا بعد ہی شہید ہوگئےتھے۔
آپ کا تبصرہ