اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ " اگر کوئی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے تو ہم پوری قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے اور اگر کوئی دوستی کرنا چاہے تو ہم بھی اس کے ساتھ دوستی کریں گے۔"
صدر ایران نے غزہ کو مزاحمت، صبر اور برداشت کی اعلی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ساری دنیا کے سیاسی ماہرین آج اس بات پر متفق ہیں کہ غزہ کی جنگ میں فاتح فلسطین کے عوام ہیں جبک غاصب صیہونی حکومت اس کے حامی یہ جنگ ہار چکے ہیں۔
انہوں نے دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے پر حملے کو اسرائيل کی شکست اور مایوسی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کے منافی اس اقدام کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ صیہونی حکومت کو اس کی سزا دی جائے گی اور ہماری مسلح افواج نے اس حکم کی تعمیل کی۔
صدر سید ابراہیم رئيسی نے مزید کہا کہ آپریشن وعدہ صادق کا واضح پیغام یہ تھا کہ " اگر کوئی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے تو ہم پوری قوت اور طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے اور اگر کوئی دوستی کرنا چاہے تو ہم بھی اس کے ساتھ دوستی کریں گے۔"
ایٹمی مذاکرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر کا کہنا تھا کہ ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا اور مذاکرات کی میز کو ترک نہیں کیا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ اور یورپ نے کئی بار اپنے وعدوں سے انحراف کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی اپنی پندرہ سے زیادہ رپورٹوں میں اس بات کا اعلان کرچکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ جوہری سرگرمیوں میں کوئی انحراف نہیں ہے اور یہ مکمل طور پر پرامن ہیں۔
صدر نے کہا کہ صرف مذاکرات سے مسائل حل نہیں ہوتے، مذکرات کی جگہ مذاکرات اور میزائل کی جگہ میزائل چلانے پڑتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ