بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی اور ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی کی مشترکہ پریس کانفرنس آج (منگل) صبح اصفہان میں ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر شروع ہوئی۔
اسلامی نے کہا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسودہ تیار کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے ڈپٹی کو بات چیت کرنی چاہیے اوراحتیاط کی جائے کہ جوہری پروگرام کے خلاف معاندانہ اقدامات جو صیہونیوں کی طرف سے شروع ہوئے ہیں، دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کو متاثر نہ کریں۔
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے کیونکہ صیہونی حکومت میڈیا میں اٹھائے جانے والے ان الزامات کی سرغنہ ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ہمیں اس حقیقت پر توجہ دینی چاہیے کہ ایران کے خلاف اقدامات کے پیچھے اس تباہ کن حکومت کا ہاتھ تھا اور صیہونی حکومت کے ان بیانات اور موقف کے بعد اسے ایران کے خلاف ایجنسی کے معیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اسلامی نے مزید کہا کہ گزشتہ سال ہم نے 20 سالہ تفصیلی اسٹریٹیجک منصوبے کو ایجنڈے میں شامل کیا ہے، اور اسے ہمارے عمل کی بنیاد سمجھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا ایک اہم جز ملک میں 20,000 میگاواٹ جوہری توانائی پیدا کرنا ہے، جو ملک کی تقریباً 22 فیصد بجلی فراہم کرے گا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2050 کے لیے دنیا کا سب سے اہم ہدف زیرو کاربن اور نیوکلیئر پاور پلانٹس کی صلاحیت تین گنا بڑھانا ہے لہذہ ہم اس کے مطابق آگے بڑھیں گے۔
ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ ریڈیو فارماسیوٹیکل کی پیداوار صحت کے شعبے کے لیے ایک مثبت قدم ہے اور دوسرا شعبہ تابکاری کا شعبہ ہے جو کہ زرعی مواد سے باقی ماندہ کیڑوں اور زہریلے مادوں کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔
اسلامی نے کہا کہ گروسی کی ایران میں موجودگی دونوں فریقوں کے درمیان این پی ٹی کی صورت میں جاری بات چیت کے مطابق ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران JCPOA سے پیچھے نہیں ہٹا مگر امریکہ نہ صرف خود پیچھے ہٹ گیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا بلکہ دوسروں کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی اجازت نہیں دی جسکی مثال 3 یورپی ممالک ہیں۔
اس موقع پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا کہ ایران میں اپنے دورے کے دوران میں نے چیف مذاکرات کار اور وزیر خارجہ کے ساتھ بہت اہم ملاقاتیں کیں اور دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کی مضبوطی پر تبادلہ خیال کیا۔
گروسی نے کہا کہ ہمیں سابقہ راستے پر واپس آنے کے لیے ایران کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور JCPOA میں واپسی کے لیے حالات کو سازگار بنانا چاہیے اور ہم جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
آپ کا تبصرہ