امیر عبداللّہیان: اسرائيل حکومت ایران کے خلاف ہر قسم کی مہم پسندی سے دستبردار ہوجائے

نیویارک – ارنا – وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کو ایرانی مفادات کے خلاف ہر قسم کی فوجی مہم پسندی کی تکرار سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔  

 نیویارک سے ارنا کے رپورٹر کے مطابق وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان نے جمعرات کو فلسطین کے موضوع پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اب ایران کا مماثل اقدام اور قانونی دفاع پورا ہوگیا ہے، بنابریں اسرائیلی حکومت کو ایران کے مفادات کے خلاف مزید فوجی مہم پسندی کی تکرار سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ پہلی اپریل کو دمشق میں ایرانی کونسلیٹ پر اسرائيلی حکومت کے حملے نے ثابت کردیا کہ یہ حکومت سفارتی مراکز اور سفارتکاروں کو حاصل ڈپلومیٹک تحفظ کے بنیادی اصولوں کو بھی پامال کرنے میں ذرا برابر نہیں ہچکچاتی ۔

ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دو اپریل کی سلامتی کونسل کی نشست میں اکثر اراکین نے یہ اعلان کیا کہ یہ حملہ اقوام متحدہ کے منشور، بین الاقوامی قوانین اور ویانا کنونشنوں کی کھلی خلاف ورزی اور قابل مذمت ہے۔   

وزیرخارجہ حسین امیر عبداللّہیان نے کہا کہ گزشتہ مہینوں کے دوران، سلامتی کونسل سے بارہا سرکاری طور پر یہ درخواستیں کی گئيں کہ اسرائیلی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف سرگرم سرکاری فوجی مشیروں اور مفادات پر حملے سے روکا جائے لیکن افسوس کہ کونسل امریکا، برطانیہ اور فرانس کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کے باعث، یکم اپریل کے کھلے غیر قانونی حملے کی مذمت میں ایک بیان  بھی  جاری کرنے سے عاجز رہ گئی ۔

ایران کے وزیرخارجہ نے کہا کہ کوئی بھی حکومت اپنے ملک کے سفارت خانے پر ایسے گستاخانہ حملے اور اپنے سفارت کاروں کی شہادت پر خاموش نہیں بیٹھ  سکتی لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے جںگ کا دائرہ پھیلنے  کی روک  تھام کے لئے، صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ میزائلی حملے پر علاقے کے حالات کے پیش نظر قابل ملاحظہ تحمل  سے کام لیتے ہوئے  اقوام متحدہ کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع  دیا لیکن جب اس نے وائٹ ہاؤ‎س کے گرین سگنل پر اسرائيلی حکومت کے جرائم کے دوام کا مشاہدہ کیا اور اسرائيلی  حکومت کے حملے  روکنے میں سلامتی کونسل  کی کمزوری اور عاجزی کو دیکھا تو پھر اپنے سفارتی مرکز پر حملے اور اپنے اقتدار اعلی کے خلاف  جارحیت پر تحمل اس کے لئے ممکن نہیں رہا۔ بنابریں تیرہ اپریل کا جوابی حملہ ضروری تھا کیونکہ:

  اولا ایران کے پاس اس کے علاوہ کوئي  دوسرا آپشن نہیں تھا،  

 دوسرے یہ حملہ نہیں تھا بلکہ صیہونی حکومت کے جرائم اور ایران کے مفادات بالخصوص شام میں ہمارے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں کیا گیا،

       تیسرے یہ جوابی حملہ، بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے قانونی دفاع کے حق کے تحت کیا گیا ،

چوتھے اس میں لوگوں اور غیر فوجی مراکزپر حملہ نہ کرنے کے اصولوں کی مکمل پابندی کی گئی اور

پانچویں یہ حملہ اسرائیلی حکومت کے صرف دو فوجی مراکز تک محدود تھا جہاں سے ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا۔  بنابریں یہ حملہ وسعت اور فوجی ضرورتوں کے لحاظ سے  محدود اور مناسب تھا۔

اسی طرح چونکہ ہمیں پوری طرح معلوم تھا کہ غزہ کے عوام کے قتل عام میں صیہونی حکومت کے جرائم میں شریک اس کے بعض حامی اس حملے کو ناکام بنانے میں اس کی مدد کریں گے لہذا قانونی دفاع اس طرح انجام دیا گیا کہ ہدف کا حصول یقینی ہو۔

انھوں نے کہا کہ اب ایران کا قانونی دفاع اور مماثل اقدام پورا ہوگیا ہے بنابریں صیہونی حکومت کو ایرانی مفادات کے خلاف مزید فوجی مہم پسندی کی تکرار سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے ۔ اس میں شک نہیں کہ  

اگر اسرائيلی حکومت نے ایرانی مفادات کے خلاف طاقت کا استعمال اور جارحیت کی تواسلامی جمہوریہ ایران بھی اس کو پشیمان کردینے والا محکم جواب دینے کے اپنے ذاتی حق  سے کام لینے میں ایک لمحے کے لئےبھی تامل نہیں کرے گا اور یہ فیصلہ ناقابل تغیرہے۔

وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان نے  غزہ کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت جاری رہنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل جنگ فورا بند کرنے اور غزہ کے عوام تک امداد پہنچانے کی اپیل پر مشتمل تین قرار دادیں اور ایک بیان جاری کرچکی ہے لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

 اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں میں 34 ہزار سے زائد عام فلسطینی شہری شہید ہوگئے جن کی اکثریت عورتوں اور معصوم بچوں کی ہے اور دسیوں ہزار زخمی ہوئے ہیں، عمدا  70 فیصد رہائشی علاقے اور بنیادی تنصیبات کو  جن میں اسپتال ، مساجد،چرچ، درسگاہیں، تاریخی اور ثقافتی مراکزشامل ہیں نشانہ بناکر تباہ کردیا گيا،امدادی دستوں پر حملے کئے گئے  جن کی ایک مثال ورلڈ سینٹرل کچن نامی بین الاقوامی امدادی تنظیم کی ٹیم پر حملہ ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ہم با آواز بلند واضح کردینان چاہتے ہیں کہ ہم نے علاقے کے تغیرات میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے، دہشت گردی کے خلاف مہم کے ذریعے پائیدار  امن واستحکام قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہم یہ  بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اپنے ملی اور ملکی مفادت کی سلامتی نیز مغربی ایشیا کے حساس علاقے میں اجتماعی امن و سلامتی کے حوالے سے کسی کی بھی پروا نہیں کریں گے ۔

 انھوں نے کہا کہ سلامتی کونسل سرکش اور باغی اسرائیلی حکومت کو  لگام دے اور غزہ میں جنگ اور نسل کشی فوری طور پر بند کرائے۔        

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .