دنیا کو بے حد شرمناک اخلاقی و انسانی بحران کا سامنا ہے، وزیر خارجہ

جینوا-ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے دور اور ہماری دنیا کو ایک بے حد شرمناک انسانی و اخلاقی بحران کا سامنا ہے جو در اصل فلسطینی قوم کے مستقبل کے تعین کے حق کو 80 برسوں سے پامال کئے جانے پر خاموشی کا نتیجہ ہے۔

وزير خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے پیر کے روز جینوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 55  ویں اجلاس میں اپنی تقریر میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنی قومی و اسلامی عقیدے اور روایتوں کی بنیاد پر انسانی حقوق اور انسانی کرامت کے احترام کی پابندی پر ثابت قدم ہے۔

انہوں نے کہا: بڑے افسوس کی بات ہے کہ انسانی حقوق کے اعلی اہداف کی تکمیل کو عالمی سطح پر کئي چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا اور فوری چیلنج دنیا کی واحد نسل پرست حکومت یعنی جنگ طلب و غاصب اسرائيلی حکومت ہے۔

وزير خارجہ نے کہا: در اصل ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے دور اور ہماری دنیا کو ایک بے حد شرمناک انسانی و اخلاقی بحران کا سامنا ہے جو در اصل فلسطینی قوم کے مستقبل کے تعین کے حق کو 80 برسوں سے پامال کئے جانے پر خاموشی کا نتیجہ ہے۔ آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکہ اور اس کے کچھ اتحادی کس طرح سے صیہونی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں جو در اصل نسل کشی میں تعاون ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بلا شبہ گزشتہ 8 عشروں میں اسرائيلی حکام کو سزا نہ دیا جانا اس حکومت کی جانب سے غاصبانہ قبضے اور قتل عام کے جاری رہنے کی اصل وجہ ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا: دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم غاصب صیہونی حکومت کو حملے جاری رکھتے ہوئے غزہ کے عوام کو بھکمری میں مبتلا کرنے اور قتل عام کی اجازت نہ دیں۔

امیر عبد اللہیان نے کہا: ہم یہ نہيں بھولیں گے کہ گزشتہ برس ایک ایرانی لڑکی کی غم انگیز موت کے بہانے اسی جگہ پر کتنے نعرے لگائے گئے اور تحقیقاتی کمیٹی تک کی تشکیل عمل میں آئی لیکن آج غزہ میں ہزاروں بے گناہ عورتوں اور بچوں کے قتل پر اقوام متحدہ میں کسی بھی قسم کی سنجیدہ سرگرمی نظر نہيں آ رہی ہے۔

ایران کے وزير خارجہ نے اسلامو فوبیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اسلام دین رحمت اور انسانیت ہے اور اسلاموفوبیا پر انسانی حقوق کونسل میں مسلسل توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .