ارنا کے نامہ نگارکی رپورٹ کے مطابق پیر، 5 فروری کو کشمیر ڈے کے موقع پر سرکاری تعطیل ہے۔ اس دن پاکستانی، کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مارچ کرتے ہیں۔
اس دن کی مناسبت سے پاکستان کے اعلیٰ عہدے داروں نے بیانات جاری کیے ہیں جن میں اس خطے کے لوگوں کی مسلسل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت پر زور دیا جارہا ہے اور بھارت کے ساتھ اس پرانے تنازع کے حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
1979میں جماعت اسلامی پاکستان کے صدر مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں نے پاکستان میں پہلی بار کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا گیا، جس کو مختلف حکومتوں نے بھارت اور کشمیر کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
اس کے بعد اس وقت کی حکومت پاکستان نے 5 فروری کو کشمیر کا قومی دن اور سرکاری تعطیل کا اعلان کیا اور ہر سال اس دن پاکستان کے مختلف شہروں میں کشمیری عوام کی حمایت میں جلسے اور مارچ منعقد کیے جاتے ہیں۔
کشمیر ڈے پر پاکستان کے سیاسی و فوجی عہدیداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی اور حق خودارادیت کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے آج کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے قومی دن کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر اس مسئلے کے پرامن حل کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر مملکت عارف علوی اور نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ نے الگ الگ پیغامات جاری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کو خطے میں امن اور خوشحالی کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ۔ انہوں نے کشمیر کی حمایت کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیح قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کو ہمہ جہت حمایت فراہم کرنے کے عزم کا اعلان کیا اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کو انسانی حقوق کے چارٹر کا احترام کرنے کی دعوت دے۔
پاکستان کے سیاسی و مذہبی رہنماؤں، حکومتی وزراء اور عوام کے مختلف طبقات نے بھی آج اسلام آباد میں کشمیر ڈے مارچ میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیئے گئے کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔
کشمیر کا تنازعہ برصغیر میں ایک پرانا زخم ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ کشیدہ تعلقات میں تشدد کی بڑی وجہ رہا ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے آج مظفرآباد شہر میں کشمیر اسمبلی سے خطاب کے دوران کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اس کے عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری طریقے سے ہونا چاہیے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا نفاذ ہونا چاہیے۔
23 جولائی 2019 کو، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر خطے کی خود مختاری اور خصوصی اختیارات کی حیثیت کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 کے مطابق اس خطے کو دفاع اور خارجہ امور کے علاوہ دیگر معاملات میں خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ گزشتہ سال کے آخر میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس ملک کی حکومت کے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو منظور کر لیا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک، کشمیر کے مسلم خطہ کا پاکستان یا ہندوستان سے الحاق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اہم تنازعات میں سے ایک بن چکا ہے۔ اسلام آباد حکومت نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مائنس کر کے کسی بھی مذاکرات کو تسلیم نہیں کرے گی اور مسئلہ کشمیر اہم نکات میں سے ایک ہونا چاہیے۔ دہلی اپنے پڑوسی کے اس موقف کو بے بنیاد سمجھتا ہے اور پاکستان سے کہتا ہے کہ وہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
آپ کا تبصرہ