سی این این کے نامہ نگار نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ اسرائیل بقول اس کے علاقے کا دولت مند ترین ملک ہے ، مسئلہ فلسطین کے باوجود اس نے عرب ملکوں سے روابط برقرار کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ ایران بقول اس کے ، کمزور ہوا ہے ، یہ سوال کیا کہ ایران نے جو حاصل کیا ہے کیا وہ اس قیمت کے برابر ہے جو اس نے ادا کی ہے ؟
صدر ایران نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ایرانی عوام امریکا اور ان یورپی ملکوں کا تسط قبول نہیں کرتے جو علاقے کو تسلط میں لینا چاہتے ہیں، ہم سبھی ملکوں کے ساتھ روابط کے خواہاں ہیں لیکن وہ تسط جمانے کی فکر میں ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ آج علاقے کی حالت کیا ہے ؟ امریکا نے شام میں جو بحران پیدا کیا اس میں کامیاب ہوا امریکا یا شام کے عوام ؟ یقینا شام کے عوام ۔ افغانستان کے بحران میں امریکی کامیاب ہوئے یا افغان عوام ؟ یقینا افغان عوام کامیاب ہوئے ہیں ۔ عراق کی جنگ میں کیا ہوا؟ اس علاقے میں امریکا اور اس کے چند اتحادیوں کو کہاں کامیابی حاصل ہوئی؟
صدر ایران نے کہا کہ ایران کے خلاف چند برس سے جاری اس مقابلہ آرائي میں بھی ایرانی عوام نے اپنی توانائي اور استقامت کو ثابت کردیا اور خطے میں استقامت کی ثقافت کو فروغ دے کر اسلامی دنیا کے لئے بھی بڑی کامیابی رقم کی ۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ مسئلہ فلسطین میں بھی امریکا کی پالیسی، صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم کو جھکانے کی تھیوری پر استوار تھی اوراستقامت اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی تھی ۔ آپ دیکھئے کہ آج صیہونیوں کے مقابلے میں کون سا فلسطینی گروہ جھکا ہے؟ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی ہے یا امریکا کی ؟
صدرایران نے کہا کہ آج کا فلسطین کل کے فلسطین سے بہت مختلف ہے ۔ پوری فلسطینی قوم غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے پر اٹھ چکی ہے ۔ سبھی استقامت پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی گروہ یا فرد جھکنے اور سازباز کی بات نہیں کرتا۔
انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر امریکا نے اتنے تشہیراتی شو کئے ، ان کا نتیجہ کیا نکلا؟
علاقے کے کس ملک کے عوام صیہونی حکومت کے ساتھ روابط معمول پر لانے کی حمایت کرتے ہیں؟ اس خطے میں ایران سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مقابلہ آرائی کے ہر میدان کو دیکھئے، یہ ایران ہے جس کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
صدر ایران نے کہا امریکا ایران کو دنیا میں الگ تھلگ کردینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی یہ کوشش بھی ناکام ہوئی ۔ وہ عالمی برادری کو اپنے آپ اور چند یورپی ملکوں پر منحصر سمجھتے ہیں لیکن دنیا دوسو سے زائد ملکوں پر مشتمل ہے اور آج دنیا کے سبھی ملکوں سے ہمارے روابط ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ آج دنیا میں امریکی طاقت زوال پذیر ہے اور اس کے مقابلے میں ایران کی پوزیشن روز بروز قوی سے قوی تر ہورہی ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ امریکا اور بعض یورپی ممالک چاہتے تھے کہ ہم مسلط کردہ جنگ میں کامیاب نہ ہوں ۔ لیکن ہم کامیاب ہوئے ۔ وہ داعش کا فتنہ کھڑا کرکے علاقے میں ہمیں روک دینا چاہتے تھے، لیکن ناکام ہوئے ۔ مسز کلنٹن نے انتخابی مناظرے میں دنیا کے عوام کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے کہا کہ داعش کو امریکا نے بنایا ہے آج داعش کے جرائم کے تعلق سے عالمی رائے عامہ کے لئے امریکیوں کے پاس کیا جواب ہے؟ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ علاقے میں داعش کی بساط شہید جنرل قاسم سلیمانی نے لپیٹ دی؟
سی این این کے نامہ نگار نے ایران میں گزشتہ برس کے بلوؤں کے تناظر میں حجاب سے متعلق کہا کہ وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہندوستان میں پلا بڑھا ہے ، اس نے پوری اسلامی دنیا میں سفر کیا ہے، بہت سی حکومتوں کا نظریہ ہے کہ خواتین کو لباس کے بارے میں حق انتخاب ہونا چاہئے ۔ تو کیا دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان غلط ہیں اور صرف اسلامی جمہوریہ ایران صحیح کہتا ہے ؟
صدر ایران نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ آپ ہر سال ایران میں یوم آزادی اور یوم قدس کے جلوسوں کو دیکھتے ہیں جو میدان میں ایرانی عوام کی موجودگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس کے موسم خزاں میں کچھ فریب خوردہ لوگ سڑکوں پر نکلے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ۔ تھوڑے سے لوگ جو اس دوران جرائم کے مرتکب ہوئے ان کا کیس عدالتوں میں ہے۔ ایرانی عوام نے اس ماجرے میں ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ اسلامی جہموریہ ایران نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ اپنے عوام کے احتجاجات اور ان کی بات سنتا ہے ۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ جو کچھ گزشتہ برس ہوا وہ ایرانی قوم کے خلاف ہائی برڈ جنگ کا حصہ تھا جس کو مکمل طور پر امریکا اور چند یورپی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ اس جنگ کے تشہیراتی حصے میں ، بعض ٹی وی چینل جن کے دفاتر امریکا اور یورپ میں ہیں، باضابطہ طور پر دہشت گردی، تشدد اور بم دھماکوں کی ٹریننگ دے رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس جو کچھ ہوا وہ اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا اور بعض یورپی ملکوں کی دشمنی کا مظہر تھا ۔ انہیں ایران میں خواتین کے حقوق کی کوئی فکر نہیں ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ انھوں نے ایٹمی معاملے میں برسوں ایران پر دباؤ ڈالا جبکہ صیہونی حکومت کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں ۔ کیا کبھی انھوں نے اس حوالے سے صیہونی حکومت پر اعتراض کیا ہے ؟ بنابریں امریکا اور یورپی ملکوں کا اصل مسئلہ نہ ایٹمی توانائي ہے اور نہ ہی ایرانی خواتین کا مسئلہ ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام ان کے مطیع ہوں ۔
صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران کے تعلق سے امریکیوں کے دو اہداف تھے۔ پہلا ہدف ایران کو الگ تھلگ کرنا تھا جس میں وہ شنگھائي تعاون تنظیم اور برکس میں ایران کی رکنیت نیز دنیا کے ملکوں کے ساتھ اس کے وسیع سیاسی، سماجی اور اقتصادی روابط کے نتیجے میں ناکام رہے ، اور دوسرا ہدف ایرانی عوام میں نا امیدی اور مایوسی پھیلانا تھا جو وہ پابندیوں اور دباؤکے ذریعے حاصل کرنا چاہتے تھےاس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی ۔ اس کی وجہ مغرب والوں کی خواہشات کے برخلاف ہماری پیشرفت اور ترقی ہے ۔ ایران مغرب کی تمام تر دشمنیوں کے باوجود ترقی کررہا ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ اب اقوام پر تسلط جمانے کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ۔ دنیا میں نئی طاقتیں وجود میں آچکی ہیں اور مستقبل وہی رقم کریں گی ۔
اس سے قبل صدر مملکت نے اس انٹرویو میں کہا کہ میں نے ہمیشہ ذرائع ابلاغ عامہ کا سامنا کیا ہے ، ان کے سوالوں کے جواب دیئے ہیں اور ملکی و غیر ملکی میڈیاہاؤسز کے نمائندوں کے ساتھ نشستوں میں ایران کا صحیح موقف بیان کیا ، لیکن امریکی اقوام تک صحیح بات کیوں نہیں پہنچنے دیتے ؟ اس بارے میں امریکی حکام سے سوال ہونا چاہئے ؛ ابلاغیاتی پابندی عوام اور اقوام پر ظلم ہے ۔
سید ابراہیم رئیسی نے امریکا کے سی این این ٹی وی کے ساتھ گفتگو میں ایران اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، ایران کے زرمبادلہ کے ذخائر آزاد کئے جانے، بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے، بریٹش، فرنچ اور جرمن انسپکٹروں سے ایران کا اعتماد سلب ہوجانے، علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ روابط معمول پر لانے کی کوششوں، مسئلہ فلسطین کے حل میں ان اقدامات کے بے فائدہ ہونے، اور گزشتہ برس کے بلوؤں کے بارے میں سوالات کے جواب دیئے۔
انھوں نے کہا کہ آپ کو امریکیوں اور یورپ والوں سے پوچھنا چاہئے کہ اس کے باوجود کہ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے پر عمل کیا،تو پھر انھوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیوں کیا ؟ اور پابندیاں ختم نہیں کیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا؟
سی این این کے نامہ نگار نے صدر ایران سے پہلا سوال قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں کیا اور کہا کہ آپ کی حکومت اور امریکی حکومت کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں، کیا آپ باہمی دلچسپی کے موضوعات پر بھی امریکی حکومت کے ساتھ کام کرسکتے ہیں؟
صدر سید ابراہیم رئیسی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے قیدیوں کے تبادلے میں انسان دوستانہ کام کیا ہے۔ جہاں تک مجھے اطلاع ہے جوایرانی امریکا میں جیل میں تھے، وہ ناحق گرفتار کئے گئے تھے، لیکن ایران میں گرفتار ہونے والے امریکی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے اور عدالتی پروسیس میں بھی ان کے جرائم ثابت ہوچکے تھے اور وہ اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔
انھو نے کہا کہ قیدیوں کا یہ تبادلہ انسان دوستانہ اقدام کے تحت انجام پایا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس اقدام سے ان قیدیوں کے گھر والے بھی خوش ہوئے ہیں اور یہ مکمل طور پر ایک انسان دوستانہ عمل تو ہے ہی۔
اس کے بعد سی این این کے نامہ نگار نے یہ سوال کیا کہ قیدیوں کے اس تبادلے کا ایک اور حصہ بھی تھا اور وہ ایران کے چند ارب ڈالر کا ریلیز کیا جانا ہے جو قطر منتقل ہوا ہے، کیا ایران ان پیسوں کو صرف انسان دوستانہ مقاصد کے لئے خرچ کرے گا؟
صدر ایران نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یہ پیسے ایرانی عوام کے ہیں جو اب تک غیر منصفانہ اور ظالمانہ طور پر منجمدکئے گئے تھے ۔ فطری طور پر یہ پیسے ایرانی عوام کی ضرورتیں پوری کرنے پر خرچ ہوں گے اور یہی ہماری ترجیح ہے۔
اس کے بعد سی این این کے نامہ نگار نے ان مسائل کو چھیڑا جو ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے ایران کے بارے میں اٹھائے ہیں اور کہا کہ آپ نے ایٹمی تنصیبات کے بعض انسپکٹروں کے نام کاٹ دیئے ہیں، ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس سے انسپکٹروں کی کارکردگی مفلوج ہوجائے گی ۔ ایجنسی نے آپ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے ۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایجنسی کے کافی افراد یہاں ہوں جو ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی مکمل طور پر تفتیش کرسکیں؟ یا آپ ایران میں ایجنسی کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر نا ممکن بنادینا چاہتے ہیں ؟
صدر سید ابراہیم رئیسی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اگر ہم یہ چاہتے کہ ایجنسی ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی جاںچ نہ کرے تو دوسرے راستے تھے اور ہم باضابطہ کہدیتے کہ ہم تعاون نہیں کریں گے۔ ایران نے شروع سے ہی تعاون کیا ہے ۔ اس کی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ذمہ داروں اور ڈائریکٹروں نے مختلف ادوار میں تصدیق کی ہے کہ ایران نے ایجنسی کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ یہ تعاون دو شکلوں میں انجام پایا ہے ۔ ایک کیمرے نصب کرکے جو مستقل طور پر تسلسل کے ساتھ ایران کے ایٹمی مراکز کی سبھی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو ریکارڈ کرتے رہتے ہیں اور دوسرے ایجنسی کے انسپکٹروں کی تفتیش کی شکل میں ۔ ایجنسی اب تک پندرہ بار اعلان اور تصدیق کرچکی ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں اور ان میں کوئی انحراف نہیں آیا ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ ہم نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ایران کی دفاعی ڈاکٹرائن میں ایٹمی اسلحے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ نہ ہمیں ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم ایٹمی اسلحے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے یقین اور رہبر معظم انقلاب کے فتوے کے مطابق ایٹمی اسلحے عام تباہی کے ہتھیاروں میں شمار ہوتے ہیں، لہذا انہیں بنانا اور رکھنا حرام ہے اور ہم اس فتوے کے پابند ہیں۔ فقہی اور اسلامی لحاظ سے یہ فتوی ہمیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہم کسی بھی طرح ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی فکر میں نہ رہیں اور اب تک اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ملا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اس یقین اور عقیدے کے خلاف عمل کیا ہو۔
انھوں نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے پر امن ہونے اور اس میں کوئی انحراف نہ آنے کے بارے میں ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے پندرہ بیان، ایجنسی کے انسپکٹروں کی تفتیش اور کیمروں کی فوٹیج کی اساس پر تیار کئے گئے تھے۔ اب آپ دیکیں کہ تین یورپی ممالک مشترکہ بیان جاری کرتے ہیں اور بے بنیاد دعوی کرتے ہیں تو پہلے مرحلے میں وہ بین الاقوامی ایجنسی کی رپورٹوں اور بیانات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
صدر ایران نے کہا کہ ایران نے کبھی نہیں کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ انسپکشن ہو۔ ہم نے کہا ہے کہ ان تین ملکوں کے انسپکٹروں پر سے ہمارا اعتماد سلب ہوگیا ہے، ان پر ہمیں شک ہے، لیکن تفتیش اور مختلف ملکوں کے انسپکٹروں کی موجودگی پر ہمیں کوئي اعتراض نہیں ہے اور ہمیشہ مختلف ملکوں کے انسپکٹر ایران آئے ہیں اور اب بھی ہماری بنا بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون ہے
سی این این کے نامہ نگار نے سوال کیا کہ آپ نے امریکی، فرانسیسی، جرمن اور برطانوی انسپکٹروں کے نام فہرست سے نکال دیئے۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس سے تفتیش مفلوج ہوجائے گی ۔ اس کا کہنا ہے کہ بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں دیا گیا ہے ۔ مذکورہ تین ملکوں نے بھی وہی سوالات پیش کئے ہیں کہ ایران کی دو تنصیبات ایٹمی تنصیبات نہیں بتائي گئی ہیں ۔ آپ ان سوالوں کا جواب کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ کیا ان تنصیبات میں افزودہ یورینیئم پایا گیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس کا اعلان کیوں نہیں کیا گيا؟
صدر ایران نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھئے اب تک بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے مختلف ڈائریکٹروں کے ادوار میں انسپکٹر وں کے مختلف گروہ ایران آئے اور انھوں نے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کا معائنہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہماری بنا ایجنسی کے ساتھ تعاون ہے تاکہ وہ ہماری ایٹمی سرگرمیوں کو دیکھ سکے کہ پر امن ہیں اور ان میں کوئي انحراف نہیں ہے۔ اور اب ایٹمی ایجنسی کے سبھی سوالات کا چاہے وہ کلی ہوں یا وقتی طورپر کئے گئے ہوں، سب کا جواب دیا گیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل جب ایٹمی توانائی کی ایجنسی کے سربراہ ایران آئے اور مجھ سے بھی انھون نے ملاقات کی، ایران کے محکمہ ایٹمی توانائي کے ذمہ دار عہدیداروں کے ساتھ ان کی جو میٹنگیں ہوئيں ان میں ان کے سبھی سوالوں کے جواب دیئے گئے اور ثابت ہوگیا کہ جو سوالات اٹھائے گئے ہیں اور جو ابہامات پیش کئے گئے ہیں ، وہ سب صرف بدگمانی پر مبنی ہیں ان کا کوئی ثبوت اور دستاویز نہیں ہے۔ ایجنسی کے ذمہ داروں ار انسپکٹروں پر متعدد میٹنگوں میں ثابت ہوچکا ہے کہ ہماری ایٹمی سرگرمیاں پر امن ہیں اور ان میں کوئی انحراف نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فرانس کے صدر سے ملاقات میں ، میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دعوی صرف بہانہ ہے ۔ دنیا کا کون سے ملک ہے جہاں اتنی تفتیش ہوئی ہو اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے اپنی پندرہ رپورٹوں میں اس کی ایٹمی سرگرمیوں کے پر امن ہونے کی تصدیق کی ہو۔
میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ایجنسی کو بعض ملکوں پر دباؤ کے حربے میں کیوں تبدیل کردیا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اصل مسئلہ ایٹمی سرگرمیاں نہیں ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی اسلحہ بنانے کا کوئي پروگرام نہیں ہے۔ پھر یہ سیاسی دباؤ کس لئے ہے ؟
صدر ایران نے کہا کہ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایران پر اتنا دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس دباؤ سے ایران ایٹمی توانائی سے پر امن استفادے سے دستبردار ہوجائے گا؟ یہ ٹیکنالوجی ملک کے لئے بہت زيادہ سود مند ہے ۔ صرف ریڈیو میڈیسین کی پیداوار سے دسیوں لاکھ لوگوں کی جان بچائی گئی ہے ۔ اس ٹیکنالوجی سے زراعت، صنعت، تیل اور گیس اور بہت سے دوسرے شعبوں میں مفید اور موثر کام لیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ دباؤ اس لئے ہے کہ ہم ایٹمی توانائي نہ حاصل کرسکیں تو غلط ہے کیونکہ ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی مقامی ہوچکی ہے اور آج ایران اپنی مقامی ایٹمی ٹیکنالوجی کے مالک ملکوں میں شامل ہے ۔ پھر بھی ہم زور دے کر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ایٹمی اسلحے کی فکر میں نہیں ہیں اور اس کی آپ نے خود بھی تصدیق کی ہے۔ اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اس حدتک دوغلا سیاسی رویہ اپنایا جارہا ہے ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان رویوں سے ایران کے اقدامات کو روکا جاسکتا ہے؟
صدر ایران نے کہا کہ یہ اقدامات صرف سیاسی حیثیت رکھتے ہیں اور ایران پر دباؤ کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں لیکن ہمارا ملک مستحکم ہے اور اس نے دھمکیوں اور دباؤ کو مواقع میں تبدیل کیا ہے
سی این این کے نامہ نگار نے کہا کہ ایران واحد ملک ہے جس نے آپ کے اعلان کے مطابق اپنے ایٹمی پروگرام کے غیر فوجی ہونے کے باوجود اعلی سطح تک یورینیئم کی افزودگی انجام دی ہے۔ کوئی اور ملک ایسا ہے جس نے غیر فوجی ایٹمی پروگرام میں یورینیئم کی ساٹھ فیصد افزودگی انجام دی ہو ؟ آپ اس سطح کی افزودگی کیوں انجام دیتے ہیں ؟
صدر ایران نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ایران کا یہ اقدام امریکا اورتین یورپی ملکوں کی جانب سے وعدہ خلافی اور معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں کیا گیا ہے۔ امریکا معاہدے سے نکل گیا اور یورپ نے وعدہ خلافی کی ۔ صرف ایران تھا جس نے ایٹمی ایجنسی کی تصدیق کے مطابق اپنے وعدوں پر عمل کیا۔ یہ اقدام مقابل فریقوں کی وعدہ خلافیوں کےجواب میں کیا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ اس اقدام کا مطلب ایٹمی اسلحہ بنانے کی طرف قدم بڑھانا ہرگز نہیں ہے۔ جب بھی دوسرے فریق ممالک اپنے وعدوں پر عمل کرنا شروع کردیں گے ، ایران بھی جس طرح اس نے اب تک اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے ، دوبارہ عمل کرنا شروع کردے گا ان کا پابند رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ یورپ اور امریکا کو فیصلہ کرنا ہے ۔ وہ فیصلہ کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ ایران نے اپنے نظریئے اور فیصلے کا سرکاری طور پر اعلان کردیا ہے ۔ اب گیند امریکا اور یورپ کے پالے میں ہے۔ انہیں فیصلہ کرنا اور اپنے وعدوں پر عمل نیز پابندیاں ختم کرنی ہیں ۔
سی این این کے نامہ نگار نے خطے میں اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کے بارے میں سوال کیا ۔
اس سوال کے جواب میں صدر ایران نے کہا کہ یہ امریکی تھے جنہوں نے بعض عرب حکومتوں اور ملکوں کا ہاتھ صیہونی حکومت کے ہاتھ میں دیا ۔ ان ملکوں کی اقوام صیہونی حکومت سے متنفر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکی سمجھتے ہیں اس طرح وہ صیہونی حکومت کے لئے امن و سلامتی پیدا کرسکتے ہیں لیکن یہ تصور غلط ہے ۔ اس طرح اس کے لئے سلامتی وجود میں ہرگز نہیں آئے گی ۔ کیوںکہ وہ اندر سے بھی شکست وریخت سے دوچار ہوچکی ہے اور دنیا کے سبھی مسلم اور غیر مسلم ملکوں کے عوام سے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ آج صیہونی جکومت دنیا کی منفورترین حکومت ہے ۔ وہ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہی ہے ۔
انھوں نے کہا کہ امریکیوں نے ایک طرف خطے کی بعض ملکوں کا ہاتھ صیہونی حکومت کے ہاتھ میں دیا اور دوسری طرف ایرانو فوبیا پھیلانے کی کوشش کی ۔
سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ یہ ممالک ایران کے قریب آئے اور ہمارے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوئے، باہمی تعاون شروع ہوا تو آپ دیکھیں کہ امریکیوں نے جو ایرانوفوبیا پھیلایا تھا ، وہ غلط اورحقیقت کے برعکس ثابت ہوا۔
انھوں نے کہا امریکیوں نے مصرمیں انور سادات کی حکومت کے دور میں بھی یہی کوشش کی تھی کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد شرم الشیخ اور اسلو کے معاہدے ہوئے لیکن صیہونی حکومت کسی بھی معاہدے کی پابند نہیں رہی اس نے سبھی معاہدوں کی خلاف ورزی کی۔
انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا حل وہی ہے جو رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیش کیا ہے کہ ہر فلسطینی چاہے وہ مسلمان ہو، یہودی ہو یا عیسائی ہو، فلسطین کی قانونی حکومت کی نوعیت کے تعین کے لئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں حصہ لے۔ آپ تو ڈیموکریسی کے قائل ہیں ، تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ پیچیدہ راہ حل کے پیچھے کیوں ہیں؟
ہمیں فالو کیجئے @IRNA_Urduc
آپ کا تبصرہ