11 جنوری، 2022، 5:27 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84610045
T T
0 Persons
ہمیں ویانا مذاکرات میں مغربی فریقین کی حکمت عملیاں نظر نہیں آتی ہیں: ایرانی وزیر خارجہ

تہران، ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ابھی ہمیں ویانا مذاکرات میں مغربی فریقین کی حکمت عملیاں نظر نہیں آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کو اپنے وعدوں میں جلد واپسی کی تیاری نہیں ہے لہذا ہم محسوس کرتے ہیں کہ مغربی فریقین ابھی تک مذاکرات کو تاخیر کا شکار کرتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے الجزیرہ ٹی وی چینل سے ایک انٹرویو میں ویانا مذاکرات، ایران اور سعودی عرب کی بات چیت، یمنی مسئلہ، ایرانی صدر کے دورہ ماسکو و غیرہ کے سوالات کا جواب دے دیا۔

امیر عبداللہیان نے الجزیرہ اینکر کیجانب سے "ایران میں کن اشارے یا تعین کرنے والے عوامل نے آپ کو یہ یقین دلایا کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات مثبت ہیں؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ ویانا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے مذاکرات کے نئے دور کے پہلے دو مرحلوں میں ہمیں مختلف وفود کے درمیان مشترکہ ادب تک پہنچنے کے لیے وقت درکار تھا۔

یرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ ویانا مذاکرات کا ساتواں دور نسبتاً مشکل تھا۔ ہمارے مذاکرات کا آٹھواں دور بہتر سمت میں چلا، اور اب  ڈاکٹر باقری اور سینئر ایرانی ماہرین کی ٹیم ویانا میں مذاکرات کر رہی ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ مذاکرات صحیح راستے پر ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ اس صحیح راستے پر پہنچنے کا بنیادی حصہ، ان اقدامات میں واپس جانا ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران نے مذاکرات کی میز پر پیش کیے ہیں جس سے دوسرے فریقین کو اچھے معاہدے تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے؛ اگر وہ واقعی سنجیدہ ارادے اور مرضی رکھتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جب ہم ایک اچھے معاہدے  سے متعلق بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب ایک ایسا معاہدہ ہے جس سے تمام فریق مطمئن ہیں جس کا خصوصیت ہے کہ تمام فریقین کو جوہری معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر واپس آنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر مغربی فریقین، نیک نیکی اور سنجیدگی رکھتے ہیں اور اگر امریکہ کیجانب سے جوہری معاہدے میں واپسی کے پیغامات اور اپنے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے کا دعوی ہے تو ہم تین یورپی فریقین سمیت چین اور روس سے مذاکرات کی میز پس اس کے اثرات کو بھی دیکھیں گے اور ایک اچھے معاہدے طے پانے کی بات کرسکیں گے۔

امیر عبداللہیان نے "کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ جب ایران پابندیاں ہٹانے کی بات کرتا ہے تو اس کا پہلے مقصد کا کیا مطلب ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہم  پابندیاں ہٹانے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب، جوہری معاہدے کی دستاویز کی مکمل واپسی ہے یعنی ہر وہ بات جو جوہری معاہدے کے متن میں پیش کی گئی اور منظور کی گئی ہے اور وہ معاہدہ ایک قرارداد بن چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مختلف فریقین کو ان تمام مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطہ نظر پر غور کرنا ہوگا؛ لہٰذا، اس مرحلے پر، ہم موجودہ ویانا مذاکرات میں جس حد کی پیروی کر رہے ہیں، وہ جوہری معاہدے سے متعلق پابندیاں ہٹانا ہے، لیکن مستقبل میں، ہم پابندیوں کے مکمل خاتمے پر ضرور غور کریں گے۔

امیر عبداللہیان نے "ایران نے ویانا مذاکرات میں کچھ ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے؛ ایران جن ضمانتوں کی بات کر رہا ہے وہ کیا ہیں اور ان کو وہ کس سے مطالبہ کیا ہے" کے سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہم ضمانتوں سے متعلق بات کرتے ہیں تو ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں؛ اہم مثالیں وہ اقدامات ہیں جو ایران کو معیشت اور غیر ملکی تجارت کے میدان میں اٹھانے ہوں گے؛ سب سے آگے تیل کی ہموار فروخت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بینکنگ نظام میں تیل کی فروخت سے زرمبادلہ کی وصولی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے ساتھ ساتھ ایران کیخلاف ان پابندیوں کو اٹھانا ہوگا جن سے ایران مستثنیٰ تھا اور جوہری معاہدے میں منظور کیا گیا تھا جن میں شپنگ، بندرگاہوں، پیٹرو کیمیکلز، انشورنس اور بہت سے دوسرے موضوعات شامل ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جب ہم ضمانتوں کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے ایران پر کوئی نئی پابندیاں نہیں لگائی جانی چاہئیں۔ دوسرا، وہ پابندیاں جو اٹھالی جاتی ہیں ان کو دوبارہ کسی اور بہانے جیسے کانگریس کا منظور کردہ قانون یا صدر کے دستخط شدہ قانون سے بحال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسنیپ بیک بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جس نے جوہری معاہدے کے اندر تنازعہ پیدا کیا ہے۔

 امیر عبداللہیان نے "ایران اور امریکہ کے درمیان غیر رسمی اور بالواسطہ پیغامات کا تبادلہ، یورپی یونین، یا نام نہاد یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کوآرڈینیٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کیا آپ نے پیغامات کے اس تبادلے میں جوہری معاہدے پر امریکی موقف میں کوئی تبدیلی محسوس کی؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ ویانا میں امریکیوں کے طرز عمل کے بارے میں، ہمیں امریکیوں سے نان پیپرز، یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر کے ذریعے کمیٹیوں اور تکنیکی بات چیت کی سطح پر اور پابندیاں ہٹانے کے موضوعات سے متعلق موصول ہوتا ہے اور ہم اسی طرح جواب دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم تین یورپی ممالک کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ بھی پابندیوں کی منسوخی کی بات چیت کر رہے ہیں؛ درحقیقت یہ  علقات کی ایک طرح کی سطح ہے جس کا تعلق مسٹر رابرٹ مالی کے ویانا میں ہونے والے موجودہ مذاکرات سے ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ لہذا مذاکرات براہ راست نہیں ہوتے اور بنیادی طور پر کوئی براہ راست مذاکرات نہیں ہوتے۔ لیکن ضرورت کے مطابق ان "نان پیپرز" کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور اقدامات کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ امریکی اچھی باتیں کہہ رہے ہیں لیکن عملی طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ ان باتوں پر عمل کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

امیر عبداللہیان نے "کیا ایران کو ویانا مذاکرات کے لیے وقت کی حد سے متعلق کوئی تشویش نہیں ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے خیال میں، جب دیگر ارکان، جوہری معاہہدے سے متعلق اپنے مکمل وعدوں پر واپس آتے ہیں، تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دیگر فریقین خاص طور مغربی فریقین کیا چاہتے ہیں؛ کیا وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات اگلے چند دنوں میں، یا اگلے چند ہفتوں میں، یا اگلے چند مہینوں میں کسی اچھے معاہدے کی طرف لے جائیں کہ نہیں؟ اسلامی جمہوریہ ایران نے عملی، واضح اور قابل حصول اقدامات کو میز پر رکھا ہے لیکن ہم ابھی تک مذاکرات میں مغربی فریق کے سنجیدہ ارادوں کو اچھی طرح محسوس نہیں کر رہے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوسرا فریق وقت کی حد کے بارے میں فکر مند ہو تو وہ بڑی آسانی سے جوہری معاہدے میں واپس آنے اور اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرنے پر راضی ہو سکتا ہے، چونکہ  جوہری معاہدے کی دستاویز میں سب کچھ واضح ہے اور طویل مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے "اسلامی جمہوریہ ایران کے سینئر مذاکرات کار اور جنوبی کوریا کے نائب وزیر خارجہ کے درمیان آج ویانا میں ملاقات ہوگی۔ جنوبی کوریا کے ایک اہلکار نے گزشتہ روز ویانا میں امریکی وفد سے ملاقات کی۔ کیا جنوبی کوریا کے ساتھ ان ملاقاتوں کا تعلق جنوبی کوریا میں ایران کے منجمد کیے گئے اثاثوں سے ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ امریکیوں نے اب تک جنوبی کوریا کے بینکوں سے ہمارے پاس موجود رقم کو ایران کو واپس جانے سے روکا ہے۔ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ نے مجھ سے اپنے آخری رابطے میں یہ بھی کہا کہ ہم ایک حل تلاش کر رہے ہیں اور ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی جائیداد اور جنوبی کوریا کے بینکوں کے واجب الادا دعوے ایران کو واپس کر سکتے ہیں۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ امریکی فریق یکطرفہ طور پر دباؤ ڈالتا ہے اور موجودہ ذمہ داریوں کے برعکس ایسا ہونے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ امریکیوں نے اسے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس صلاحیت کو تجارت کے مذاکرات کے سلسلے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لہذا یہ یقین طور پر میرا یہ کہنا کہ درست نہیں ہے کہ ویانا مذاکرات اور غیر ملکی بینکوں میں ہمارے اثاثوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک طرح کا تعلق ہے اور یہ امریکیوں کی یکطرفہ پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے "اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کیخلاف فوجی کارروائی کرے گا اور ایران کی جوہری تنصیبات کے قلب کو نشانہ بنائے گا۔ اگر اسرائیل اس دھمکی کو حقیقت میں  سرانجام دیتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ ناجائز صہیونی ریاست، ایران اور پانچ ممالک کے درمیان کسی بھی اچھے معاہدے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

 امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ وہ واضح طور پر جانتے ہیں کہ ہم صیہونی ریاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؛ ہم صیہونی ریاست کو ایک جعلی ریاست سمجھتے ہیں جس نے جرائم کے سوا خطی عوام کی رائے عامے میں کوئی اور یاد نہیں چھوڑی۔

ایرانی  وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ صہیونیوں کے الفاظ اور دعوے اس جعلی ریاست کے چھوٹے قد سے باہر ہیں۔ ویانا مذاکرات میں ہمیں اپنے حساب کتاب میں کہیں بھی صہیونی نظر نہیں آتے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ تخریبی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور ہم نے مذاکراتی فریقوں سے بھی واضح طور پر کہا کہ اگر آپ سنجیدہ ارادے رکھتے ہیں تو آپ اس معاملے میں صہیونیوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری اور تعلق کو واضح کریں۔

انہوں نے "آپ بغداد میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کے پانچویں دور کی تیاری کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو سعودی عرب کی طرف سے ان تجاویز کا جواب موصول ہوا ہے جو ماضی میں ایران نے پیش کی ہیں؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ عراق میں متعلقہ سعودی حکام کے ساتھ ہماری مثبت اور تعمیری بات چیت کے چار دور ہوئے۔ عراق میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد اور اس حقیقت کی وجہ سے کہ عراق کی گورننگ باڈی اور تینوں شاخوں کے سربراہ مستقبل میں نئی ​​حکومت کی تشکیل میں شامل ہیں، فطری طور پر انتخابی ماحول سے عراقیوں کا کردار متاثر ہوا۔

امیر عبداللہان نے کہا کہ ہم نے اپنے سرکاری مؤقف کے طور پر جو بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی سعودی فریق چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئیں تو ہم تیار ہیں اور اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ کھولنے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عنقریب ہمارے سفارت کار جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نمائندگی میں تعینات ہوں گے۔ میرے خیال میں اگلے ہفتے ہمارے سفارت کاروں کو تعینات کیا جائے گا جو کہ ایک مثبت اور اچھی علامت ہے۔

انہوں  "کیا علاقائی مسائل اور خطے کے کچھ گرم موضوعات جیسے یمن، عراق، شام، فلسطین وغیرہ، ایران سعودی مذاکرات میں شامل ہیں؟ یا اس مرحلے پر بات چیت صرف اور صرف دو طرفہ تعلقات پر مرکوز ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ مذاکرات کے پہلے دو دور کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، میں سمجھتا ہوں کہ سعودی فریق کچھ علاقائی مسائل پر بھی بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن فی الحال ہماری بات چیت دوطرفہ مسائل پر مرکوز ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے "اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آنے والے دنوں میں ماسکو کا ایک اہم دورہ کریں گے۔ ایران اور روس کے درمیان طویل مدتی اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کرنے کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔ کیا ایران اور روس کے درمیان اس معاہدے کی تیاری کی جا رہی ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ نئی ایرانی حکومت کی خارجہ پالیسی متوازن خارجہ پالیسی ماڈل، متحرک اور ذہین سفارت کاری پر مبنی ہے۔ متوازن خارجہ پالیسی میں ہم  بیک وقت مغرب اور مشرق کے ساتھ تعلقات کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں پڑوسیوں کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر رئیسی کا تیسرا غیر ملکی دورہ روس جلد کیا جائے گا جو یقیناً ان کا روس کا دوسرا سرکاری دو طرفہ دورہ ہوگا۔

 امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ صدر پیوٹین کے روس میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی سالوں میں تعاون کے بہت زیادہ امکانات ہیں اور ہم اس موقع کو مشترکہ بھلائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ تہران اور ماسکو کے درمیان تعاون کی ایک طویل المدتی دستاویز کی ترقی کے نام سے ایک آئیڈیا موجود ہے، جسے ہم اس آئیڈیا کو تیار کرنے کے ماہرانہ مراحل میں ہیں، اور میرا خیال ہے کہ آنے والے مہینوں میں ہم ایک تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں کہ اس آئیڈیا کو حتمی شکل دی گئی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اور روس کے صدور کی مستقبل قریب ملاقات میں دونوں فریقین طویل مدتی، پائیدار اور اسٹریٹجک تعاون پر مذاکرات کریں گے۔

**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .