14 دسمبر، 2021، 6:11 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84577173
T T
0 Persons
ویانا مذاکرات کی کامیابی دوسرے فریق کے سنجیدہ عزم پر منحصر ہے: باقری کنی

ویانا، ارنا- اعلی ایرانی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ اگر دوسرا فریق جوہری معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ ارادہ اور عملی تیاری رکھتا ہے، تو ہم مختصر مدت کے اندر دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول معاہدے تک پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق، "علی باقری کنی" نے منگل کے روز ایک انٹرویو میں کہا کہ ان مذاکرات میں جس بات پر ہم زور دے رہے ہیں اور جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور دیگر اعلیٰ حکام پہلے ہی زور دے چکے ہیں، وہ یہ ہے کہ ویانا مذاکرات میں ہماری اولین ترجیح ایران کے خلاف تمام غیر قانونی اور جابرانہ پابندیوں کو ہٹانا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی قوم پر جو پابندیاں عائد اور دوبارہ لگائی گئی ہیں وہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں، جوہری معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے خلاف ہیں۔

ایرانی سفارت کار نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے علاوہ، 4+1 گروپ کے دیگر ممالک اور یہاں تک کہ نئی امریکی انتظامیہ بھی اس مسئلے پر متفق ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ سابقہ ​​امریکی انتظامیہ نے جوہری معاہدے سے علحیدہ ہوکر ایک غیر قانونی قدم اٹھایا تھا۔ اور اسی لیے نئی حکومت؛ بائیڈن حکومت، اس غلط اقدام کو سدھارنا چاہتی ہے اور وہ 2015 کے معاہدے پر واپس جانا چاہتی ہے۔

انہوں نے حالیہ مذاکرات میں ایران کی طرف سے پیش کردہ مسودے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ویانا میں مذاکرات کے چھ دوروں کے دوران، دونوں فریقوں نے آخر کار کئی نصوص پیش کیے۔ جن میں سے دو دستاویزات ایران سے متعلق تھیں جو ملک کیخلاف ظالمانہ پابندیوں و نیز ایران جوہری سرگرمیوں کے مسائل کے فریم ورک کے اندر پیش کی گئی تھیں۔

باقری کنی نے کہا کہ ایران میں صدارتی انتخابات ہوئے اور ایک نئی حکومت برسر اقتدار آئی۔ حکومت خارجہ پالیسی سمیت مختلف شعبوں میں نئی ​​حکمت عملی اور ترجیح کے ساتھ برسراقتدار آئی۔ نئی حکومت کا اس سال 20 جون کو تیار کردہ متن کو مدنظر رکھنا اور 20 جون 2021 کو پابندیوں کے خاتمے اور جوہری وعدوں سے متعلق مسودہ دستاویز میں اس کے موقف اور تحفظات کا خیال رکھنا معمول کی بات تھی۔

انہوں نے کہا کہ 9 نومبر کو مذاکرات کے آغاز سے (علامہ رئیسی کی حکومت میں ویانا میں مذاکرات کا نیا دور) تکنیکی سطح پر اور سینئر سیاسی ماہرین کے ساتھ دونوں مسودوں پر بات چیت کے لیے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور گزشتہ چند دنوں کے دوران، اختلافات کی نشاندہی کرنے کیلئے ورکنگ گروپ کے فریم ورک میں کئی میٹنگیں ہوئی ہیں تا کہ اختلافات کو کم کیا جا سکے۔

باقری کنی نے کہا کہ اس کے مطابق، تنازعات کے حل کیلئے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت جاری ہے تاکہ ہم اس مرحلے میں داخل ہو سکیں جہاں سے ہم ان تنازعات کو حل کر سکیں، اور  اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں بہت اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

انہوں نے مغربی فریقین کیجانب سے ایران کی طرف سے وقت خریدنے کے دعوے سے متعلق کہا کہ جس ریاست نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو دہشت گردانہ کارروائیوں اور دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا ہے وہی مذاکرات کی پیش رفت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سنجیدہ کوشش میں ہے۔ مذاکراتی کمرے کے باہر مذاکرات کی جگہ کو زہر آلود کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ، وہ مذاکراتی کمرے کے اندر ایک غیر تعمیری جگہ پیدا کرنے کی امید رکھتی ہے۔

باقری نے جو بائیڈن کی حکومت کے متضاد رویے اور عہدوں سے متعلق جو "امریکی حکومت جوہری معاہدے میں واپسی کی خواہش ظاہر کرنے کے باوجود، مذاکرات کے دوران نئی پابندیاں عائد کرتی ہے" کے  سوال کے جواب میں کہا کہ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک متضاد اور دوہرا رویہ ہے جس پر امریکہ کو وضاحت کرنی ہوگی اور پابندیوں کے خاتمے کے لیے سنجیدہ مذاکراتی عمل ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔

ایران کے اعلی مذاکرات کار نے ملک کے جوہری پروگرام کی نوعیت کے سے متعلق مغرب اور صیہونی ریاست کے اتحادیوں کے دعوؤں سے متعلق کہا کہ تمام ایٹمی سرگرمیاں این پی ٹی معاہدے کے دائرہ کار میں ہوتی ہیں اور ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیوں کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی طرف سے جامع نگرانی کی جاتی ہے؛ ایران کی کوئی خفیہ جوہری سرگرمیاں نہیں ہیں۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .