یہ بات محمد باقر قالیباف نے ترکی میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی پارلیمانی یونین (PUIC)کے 16 ویں اجلاس میں فلسطین، امیگریشن اور افغانستان کے موضوعات کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دہائیوں میں اسلامی ممالک نے ثقافتی، سماجی اور سیاسی تعلقات کے مختلف پہلوؤں میں ترقی کے لیے قومی کوششوں کی مدد سے ایک نئی تحریک شروع کی ہے لیکن یہ تبدیلی عالم اسلام کے لیے ایک امید افزا مستقبل کی نشاندہی کرے گی جب تمام مسلم اقوام عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے مشترکہ اسلامی اقدار کے گرد متحد ہو جائیں گی۔
انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کو عالم اسلام کا اہم ترین اسٹریٹجک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی بین الپارلیمانی یونین کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ایرانی اسپیکر نے بتایا کہ فلسطین کا مسئلہ عالم اسلام کی اہم ترین ترجیح ہے اور سات دہائیوں سے زائد عرصے سے دنیا انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزیوں میں فلسطینیوں کے وقار کو پامال کرنے اور صہیونی ریاست کے وحشیانہ اقدامات کو دیکھ رہی ہے۔
قالیباف نے مزاحمتی فرنٹ کو مغرب میں صیہونیوں کی ذلت، رسوائی اور نفرت کا سبب قرار دیا اور کہا کہ یورپ اور امریکہ کی سڑکوں میں فلسطین کے حامیوں پر ایک نظر ڈالیں۔ فلسطینی عوام نے مزاحمت کے ذریعے اپنی تقدیر کو بدل دیا۔ مزاحمت کا راستہ جاری رکھنا صیہونی حکومت کی تباہی ہے۔ اگرچہ بعض لوگ لاچاری و بے بسی سے صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن صیہونی حکومت زوال کے دہانے پر ہے۔
قالیباف نے بتایا کہ افغانستان کی صورتحال آج نازک ہے اور یہ امت اسلامیہ کے چیلنجوں میں سے ایک ہے اسی لیے اسلامی ممالک کو فوری طور پر افغانستان کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے اجتماعی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
https://twitter.com/IRNAURDU1
آپ کا تبصرہ