یہ بات حسین امیر عبداللہیان نے جمعہ کے روز این بی سی نیوز پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہی۔
انہوں نے جوہری مذاکرات میں ایران کی فوری تیاری پر بات کی اور کہا کہ لیکن امریکہ نے اقتصادی پابندیاں نہ اٹھا کر اور تہران پر نئی پابندیاں عائد کر کے منفی اشارہ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ٹھوس اقدامات کے ساتھ اپنے سفارتی وعدوں کی حمایت کرنی چاہیے اور تہران کو ثابت کرنا چاہیے کہ واشنگٹن 2015 کے ایٹمی معاہدے پر واپس آنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
امیرعبداللہیان نے کہا کہ بائیڈن ایران کے حوالے سے اپنے پیشرو ٹرمپ کے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی جمہوریہ ایران پر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ ہر قسم کی پابندیوں کو نافذ کرتے رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے تو اس نے فیصلہ کن اقدامات کیوں نہیں کیے؟ ایران اسی کو منفی علامت کے طور پر دیکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے ان تمام سالوں میں جوہری معاہدے سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اب وہ سابقہ ایرانی حکومت کی طرف سے کئے گئے مذاکرات کا جائزہ لے رہا ہے اور اس کا مطالعہ کر رہا ہے ، لیکن یہ سفارتکاری اور مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے گا اور جلد بات چیت کی طرف لوٹیں گے۔
عبداللہیان نے تصدیق کی کہ ایران امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت کے لیے تیار ہے کیونکہ وہ اسے ایک انسانی مسئلہ کے طور پر دیکھتا ہے۔
وزیر خارجہ نے بعض ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے صہیونی ادارے کے ہاتھوں قتل اور ایٹمی تنصیبات میں اس کی تخریب کاری کے اقدامات کا حوالہ دیا ان کارروائیوں کی مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اگر ضروری ہو تو ایران اپنی قومی سلامتی کو نشانہ بنانے والے کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر اپنی انہوں نے ملاقاتوں کے بارے میں کہا کہ انہوں نے جرمن اور برطانوی حکام کے ساتھ تعمیری بات چیت کی ہے ، اور فرانس کے ساتھ بھی اسی طرح کے مذاکرات کریں گے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ