29 جون، 2021، 3:04 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84387601
T T
0 Persons
اسلامی جمہوریہ ایران کیمیائی ہتیھاروں کا شکار ملک

تہران، ارنا- 28 جون 1987میں عراق کا ظالم آمر کے حکم کے ذریعے ایران کے مغربی سرحدی شہر "سردشت" پر کیمیائی بمباری نے اس شہر کو دنیا میں مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں کے پہلے شکار ہونے والے شہروں کی فہرست میں قرار دیا۔

ایرانی نہتے عوام کے خلاف صدام کی اس ظالمانہ جارحیت میں بہت سے سامراجی طاقتوں نے صدام کی پشت پناہی کی؛ اس کیمیائی حملے میں سردشت کے 119 نہتے شہری شہید اور ہزاروں افراد زخمی ہو گئے اور اس حملے سے 34 سال گزرنے کے باوجود اس کے اثرات متاثرہ لوگوں میں نظر آرہے ہیں۔

لیکن ان مصیبتوں سے بدتر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں ان جرائم اور جارحیت پر خاموش بیٹھے ہیں اور ابھی بھی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے ظالم صدام کی مذمت نہیں کی ہے۔

اس جارحیت سے خطے کے بعض طاقتور ممالک کی حمایت نے صدام کے اس وحشیانہ اقدام کو عالمی برادری کی دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا ہے۔

عالمی برادری جابر حکمران صدام کے جرائم پر عالمی برادری کی غفلت  کی وجہ سے اس ظالم آمر نے  15 مارس 1988  ایرانی علاقے حلبچہ پر کیمیائی حملہ کردیا جس ہولناک حملے کے نتیجے میں 5 ہزار نہتے شہری شہید ہوگئے۔

تاریخ کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد ایران کیمیائی حملوں کا شکار ہونے والا بڑا ملک ہے جس کے خلاف ایک ظالم آمر نے ایسا جرم کیا جسے دنیا کی بڑی مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔

یہ کہنا درست ہے کہ ایران کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کیس اب بھی کھلا ہے جس پر مغربی ملکوں کو جوابدہ ہونا ہوگا؛ ظالم آمر صدام نے ایسے مہلک ہتھیاروں کو ایران کے خلاف استعمال کرکے فوجی اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا۔

بے شک اسلامی جمہوریہ ایران کیمیائی حملوں کا بڑا شکار ہے؛ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام کی فوج نے کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے ایران کے مختلف علاقوں پر حملہ کیا جس میں ہزاروں نہتے شہری شہید ہوئے آج بھی ان حملوں سے تین دہائیاں کے باوجود باوجود اس کے اثرات متاثرہ لوگوں میں نظر آرہے ہیں۔

 1980 میں ایران کے خلاف عراق کی جنگ کے آغاز کے دو مہینے گزرنے کے بعد ایران نے عالمی برادری کو خبردار کیا کہ صدام ایرانی قوم کے خلاف کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعامل کا ارادہ رکھتا ہے اور صدام نے ایسا ہی کیا مگر عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل نے اس پر مجرمانہ خاموشی برتی۔

عراق کے مسلسل کیمیائی حملوں کے ساتھ ایران نے بھی متعدد بار اقوام متحدہ میں احتجاج ریکارڈ کرایا جس کے بعد اقوام متحدہ نے پہلی بار فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل دی اور مارچ 1984 میں سوئس، آسٹریلوی، ہسپانوی اور سوئڈش ماہرین پر مشتمل ٹیم ایران آئی اور ٹیم نے اپنی تحقیقات میں صدام کے کیمیائی حملوں کو مسترد نہیں کرسکی.

 دورہ ایران کے بعد تحقیقاتی ٹیم واپس چلی گئی اور اپنی رپورٹ سلامتی کونسل کو پیش کردی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سلامتی کونسل نے عراق کا نام لئے بغیر جنگ کے فریقین کو جنیوا کے معاہدوں پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

1986 میں بھی سربراہ اقوام متحدہ کے احکامات پر ایک اور تحقیقاتی ٹیم جنگی علاقوں کا دورہ کیا جہاں صدام کی فورسز کو ایرانی فوج کے مقابلے میں ناکامی کے بعد ایرانی اہلکاروں پر کیمیائی حملہ کردیا۔

اس دورے کی رپورٹس کو بھی سلامتی کونسل کو پیش کیا گیا اور 21 مارچ 1986 میں اس حوالے سے قرارداد بھی لائی گئی تاہم اس کے باوجود مغربی ممالک نے ظالم صدام کے خلاف قرارداد لانے میں بہانہ بازی کی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ صدام کی ہٹ دھرمی اور جارحانہ کاروائیوں کا ذمہ دار کون تھا؟ وہ آئے روز جارحیت میں اضافہ کرتا چلا آرہا تھا اور ایران کے خلاف کیمیائی حملوں میں بھی اضافہ ہوا مگر کسی نے بھی دنیا میں ایران کی فریاد نہیں سنی۔

9 جولائی 1987 کو صدام کی فضائیہ نے ایرانی علاقے سردشت پر فضائی حملے کے ذریعے کیمیائی بم پھینکا جس میں 130 نہتے افراد جو زیادہ تر کُرد برادری سے تعلق رکھتے تھے، شہید ہوئے اور کئی ہزار لوگ بھی متاثر ہوئے جن میں سے زیادہ تر لوگ آج زندہ تو ہیں مگر اس کے اثرات سے تکلیف میں ہیں۔

صوبہ کرمانشاہ کے علاقے نودشہ پاوہ پر بھی صدام نے کیمیائی حملہ کیا جس میں بچے اور خواتین سمیت 100 افراد نے جام شہادت نوش کیا لیکن دنیا تب بھی چپ رہی اور صدام کو مغربی طاقتوں اور خطے کے عرب ممالک کی حمایت ملتی رہی۔

مغربی طاقتوں کی حمایت سے صدام کی درندگی ایسی حد تک پہنچ گئی کہ اس نے اپنی ہی کُرد برادری پر جس نے ایرانی کردوں کو مدد فراہم کی تھی، بڑے پیمانے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جس میں 5 ہزار سے زائد عراقی کردی شہید اور 7 ہزار لوگ بھی متاثر ہوئے لیکن پھر بھی مغربی قوتیں ٹس سے مس نہ ہوئیں۔

حلبچہ میں نہتے عوام کے قتل عام کے بعد اقوام متحدہ میں مغربی جرمنی، اٹلی اور جاپان کی حمایت یافتہ قرارداد کو پاس کیا گیا جس میں کیمیائی حملوں کی مذمت کی گئی تاہم اس میں استعمال کرنے والے کا نام تک نہیں لیا گیا۔

کیمیائی حملوں کی تحقیقات میں مغربی ممالک نے بھی غفلت برتی، ایران پر برسائے جانے والے اکثر کیمیائی بموں میں سویت یونین اور مختلف مغربی ملکوں کی کمپنیوں کے لوگو چسپاں تھے مگر کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔

جرمنی کی 85 کمپنیاں، فرانس کی 19، برطانیہ کی 18 اور امریکہ کی 18 کمپنیوں نے صدام کو کیمیائی ہتھیار فراہم کئےاور یہ تمام تفصیلات انھی تحقیقات سے ملی ہیں جو صدام کے خلاف کی گئی تھیں۔

21 اپریل 1988 اقوام متحدہ میں ایرانی مندوب نے 1981 سے 1988 تک صدام کی جانب سے کئے گئے کیمیائی حملوں کی تفصیلی رپورٹس پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ 56700 نہتے ایرانی شہید ہوئے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .