سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت ہے

اسلام آباد، ارنا- ایران اور پاکستان کے مفکرین اور سیاسی شخصیات نے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان مشترکات کو باہمی اسٹریٹجک اور کثیرالجہتی تعلقات کی مضبوط وجہ قرار دیتے ہوئے سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت پر زور دیا۔

تفصیلات کے مطابق، آج بروز پیر کو پاکستان ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور ایران انٹرنیشنل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ابرار معاصر کے زیر اہتمام میں "پاک- ایران اسٹرٹیجک تعلقات؛ تعاون کے مواقع" کے عنوان کے تحت ایک وبینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی شخصیات بالخصوص تہران اور اسلام آباد میں تعینات سابق سفرا نے حصہ لیا تھا۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کی تاریخی، ثقافتی، معاشرتی اور جغرافیائی مشترکات کو دو برادر ہمسایہ ممالک کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ایک مضبوط عامل قرار دے دیا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسٹریٹجک تعاون بالخصوص ایران اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تجارتی تعلقات کو جیت ڈیل کی صورت میں ہونا ہوگا اور ایران اور پاکستان میں نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ضروری مشترکہ منصوبوں کی تیاری اور ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں دونوں ممالک کی شراکت بھی عوامی تعلقات کو قریب تر بنائے گی۔

پاکستان اور ایران کے تجزیہ کاروں نے علاقائی صورتحال اور افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر زور دیا اور کہا کہ علاقائی مسائل بشمول افغان مسئلے کے حل میں اسلام آباد اور تہران کا تعاون، علاقے میں پائیدار امن اور سلامتی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

انہوں نے پاک ایران مشترکہ اقتصادی راہداری "سی پیک" کو دونوں ممالک کے گہرے قریبی تعلقات کا ایک اچھا موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ گوادر اور چابہار کی بندرگاہوں پر دونوں ممالک کی کاروباری اور سماجی برادری کے باقاعدہ دوروں سے ایران اور پاکستان کی قوموں کے مابین بہتر تفہیم پیدا ہوسکتا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کی ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت ہے

اس موقع پر پاکستان میں تعینات سابق ایرانی سفیر "ماشاللہ شاکری" نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران، افغانستان، ترکی، آذربائیجان، عراق اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارتی تعلقات کی اچھی سطح ہے لہذا توقع کی جاتی ہے کہ پاکستان ایران سے اپنے تجارتی تعلقات کے فروغ کیلئے مناسب طریقہ کار اپنائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں میں دونوں ممالک ہمیشہ شانہ بشانہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون کے بہت امکانات ہیں۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے سے پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر کے لئے بھی کام کر سکتے ہیں،  اوردونوں ممالک کے مابین ریل اور روڈ مواصلات کو بہتر بنانا ہوگا۔ تہران اور اسلام آباد کے مابین براہ راست پروازیں نہیں ہیں جبکہ ایران اور پاکستان کے دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست پروازوں کے قیام سمیت سمندری تعاون کی کافی گنجائش ہے۔

شاکری نے کہا کہ خطے میں قیام امن اور سلامتی ناگزیر ہے اور اس حوالے سے ایران اور پاکستان کا تعاون ضروری ہے اور ہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدکی کے خاتمے کیلئے پُر امید ہیں۔

سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت ہے

اس کے علاوہ ایران میں تعینات سابق پاکستانی سفیر "آصف علی خان درانی" نے کہا کہ اسلام آباد نے بدستور ایران کی پُرامن جوہری منصوبوں کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے اور دونوں ممالک کو مشترکہ چیلنج یعنی دہشتگردی کا سامنا ہے۔

درانی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے اس حوالے سے سرحدی بازاروں کے قیام کو انتہائی تعمیری اور موثر قرار دے دیا۔

 اس موقع پر سینیٹ آف پاکستان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین "مشاہد حسین" نے کہا کہ پاکستان ایران جوہری معاہدے کا مضبوط حامی ہے اور امریکہ کیجانب سے ایران کیخلاف تمام پابندیوں کو ختم کرنے کا خواہاں ہے کیونکہ ہم نے بھی ایسی صورتحال اور مغرب کی امتیازی سلوک کے نتیجے میں مشکل صورتحال کا سامنا کیا ہے۔

سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت ہے

اس کے علاوہ تہران کی ابرار معاصر انسٹی ٹیوٹ کی خاتون ڈائریکٹر برائے جنوبی اور مشرقی ایشیا اسٹڈیز گروہ " سمیہ مروتی" نے کہا کہ امریکہ کو ایران اور پاکستان کے تعلقات میں ایک موثر کردار حاصل ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کے ان جیسے اقدامات اور یکطرفہ پابندیوں کیخلاف مقابلہ کرنے کیلئے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کے فروغ پی پالیسی اپنائی ہے۔

مروتی نے کہا کہ ایران کی پاکستان کو اپنی جنوب مشرقی سرحدوں سے یورپ اور مشرق وسطی سے جوڑنے کی اعلی صلاحیت ہے جس سے دوطرفہ تجارت اور راہداری کو بڑھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے کوئٹہ- زاہدان ریلوے ایران کے قومی ریلوے نیٹ ورک سے منسلک ہوسکتی ہے اور اسے ترکی اور اس سے آگے بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔

سلامتی، تجارتی اور ثقافتی شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے پاک-ایران کی جامع سفارتکاری کی ضرورت ہے

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .