تفصیلات کے مطابق، آج بروز پیر کو چابہار پورٹ کی ترقی کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے سے متعلق ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں بھارت کے سفیر اور دیگر غیر ملکی نمائندوں اور سفرا نے حصہ لیا تھا۔
اس اجلاس میں بھارت کے سفیر اور تہران میں 20 سے زائد بیرونی ممالک کے سفیروں اور نمائندوں بشمول فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ، فن لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، سوئٹزرلینڈ، عمان، افغانستان، قازقستان، تاجکستان، انڈونیشیا، ملیشیا، ناروے، ترکمنستان، ازبکستان اور سری لنکا کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر بھارتی سفیر نے گزشتہ ہفتے کے دوران، ممبئی میں منعقدہ بحر ہند سمٹ میں چابہار ڈے کے لئے مختص ہونے کا ذکر کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کو خطے کے تجارتی نقل و حمل کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت سے افغانستان اور ایران کو ہر طرح کی انسانی امداد چابہار کی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔
گدام دارمندرا نے چابہار پورٹ کے ذریعے 75 ہزار ٹن گندم بھارت سے افغانستان بھیجنے اور 25 ٹن کیڑے مار دوا ایران بھیجنے کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے 2016ء میں بھارتی وزیر اعظم کے دورے ایران کے موقع پر چابہار بندرگاہ کے فروغ پر بھارت، ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کے معاہدے پر دستخط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک محفوظ تجارتی راستہ کا قیام اور خطے کے لینڈسلک ممالک کو وسطی ایشیا اور مغربی یورپ کے ممالک تک بلا روک ٹوک رسائی اس معاہدے کا ایک حصہ ہے۔
بھارتی سفیر نے کہا کہ ایران اور بھارت کے تعاون سے چابہار بندرگاہ، شمال مغربی راہداری کے راستے بحیرہ کیسپین کے مشرق اور مغرب میں آس پاس کے ممالک کو ملانے والی شاہراہ ہوگی اور اس علاقے کے ممالک کی ترقی کی توقع کی جا رہی ہے۔
اس موقع پر تہران چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران، بھارت اور افغانستان مشترکات اور تہذیبی انفراسٹرکچر کے لحاظ سے دنیا کے تین انوکھے ممالک ہیں؛ مختلف وجوہات کی بنا پر یہ تینوں ممالک دولت کے حصول اور امن کے قیام کیلے ان بے پناہ صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال نہیں کرسکے ہیں تا ہم چابہار کی بندرگاہ میں تعاون کو بڑھا کر یہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ