1948 کے 15 مئی میں میں لاکھوں فلسطینیوں کو جبری طور پر اپنی آبائی علاقوں سے نقل مکانی کی یاد دلائی جارہی ہے جسے صیہونی فورسز نے بڑے پیمانے پر برطانوی اور امریکی حمایت کے تحت انجام دیا تھا اور یہ خطی ممالک میں صہیونیوں کے بہت سے خوفناک اور غیر انسانی جرائم کا ذریعہ بن گیا۔
صہیونی غاصبوں نے فلسطینی علاقوں کے 774 دیہاتوں اور قصبوں پر حملہ کرنے اور پندرہ مسلم اور عیسائی شہریوں کی ہلاکت کے بعد فلسطینی سرزمین کا تقریبا 80 فیصد علاقے پر قبضہ کیا اور اس انسانی تباہی سے بچ جانے والوں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے ، غزہ کی پٹی اور پڑوسی ممالک جیسے شام ، اردن اور لبنان کی طرف ہجرت کر گیا۔
فلسطینیوں کی آوارگی 1897 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں پہلا صہیونی ریاست کے قیام اور فلسطین کی سرپرستی کو برطانیہ میں منتقل کرنے اور 1917 میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ کی طرف سے "بالفور" اعلامیہ جاری کرنے کا نتیجہ ہے اور آخر کار 1947 میں اقوام متحدہ نے قرارداد 181 کے ذریعے فلسطین کو صہیونی اور عرب بستیوں میں تقسیم کردیا۔
ایک سال بعد ، صیہونی جنھوں نے مغرب کی مکمل حمایت کی ساتھ اپنے قبضے پر منظوری کی مہر دیکھی ، قتل، غارت گری، تشدد اور قبضے کے سلسلے میں ایک نیا باب شروع کیا تاکہ "صیہونیت سے دریائے فرات تک" کے دیرینہ خواب کو پورا کیا جاسکے تاکہ مقبوضہ علاقوں میں قریب 160 ہزار عرب نسل کے فلسطینی شہری ہی رہے۔
قانونی حیثیت حاصل کرنے کیلئے ناکام کوششیں
صہیونی حکام نے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے وقت سے ہی مستقل فلسطینی ثقافت، ورثے، مذہبی اور معاشرتی پس منظر اور اس سرزمین کے اصل باشندوں کی تاریخ کو ختم کرکے معاشی ، فوجی ، سیاسی اور حتی تاریخ کی تحریف کے استعمال کے ساتھ ایک نئی شناخت پیدا کرنے، علاقائی اور عالمی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لئے کوششیں کی ہیں مگر صیہونی فوجیوں نے امریکہ اور برطانیہ کی حمایت کے باوجود فلسطین کی تاریخ اور ثقافتی اجزاء کو ختم کرنے کی سازش میں کامیابی حاصل نہ کرلی اور ابھی بھی دنیا کی اقوام صیہونیوں کو مٹھی بھر قابض اور شناخت کے بغیر اور فلسطینیوں کو اس سرزمین کی ابدی اور اصل مالک سمجھتی ہے۔
صیہونیوں نے اس جعلی حکومت کے بانیوں کی ناقابل قبول خواہشات کو "نیل سے فرات تک" کے بدنام خیال سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ نہ صرف مقبوضہ علاقوں کو عبور کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ فلسطینی بچوں سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ مقبوضہ علاقے بھی ناکام ہوچکے ہیں تاکہ انہوں نے برسوں کے قبضے کے بعد لامحالہ اور عاجزی کے ساتھ فلسطینی علاقوں کے کچھ حصے غزہ کی پٹی جیسے علاقوں کو چھوڑ دیا۔
فلسطینی سرزمین کو یہودی بنانے اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی غاصبوں کی کوشش ایک ایسا خواب ہے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے تک نامعلوم ہے اور کچھ علاقائی ممالک کی فلسطینی دشمن کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرنے کے لئے سازشوں کے باوجود یہ کبھی حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔
ان ساری کوششوں اور صیہونیوں سے امریکہ کی حمایت اور حتی کہ فلسطین کی حمایت کی وجہ سے واشنگٹن کے یونیسکو سے دستبرداری کے باوجود دنیا کے عوام آج بھی فلسطین کو فلسطینیوں اور اس سرزمین کو اپنے اصل باشندوں بشمول مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کا عظیم ورثہ سمجھتے ہیں اور یوم نکبت اس الٰہی سرزمین کی ثقافت اور ورثہ کی لافانی کی یاد دہانی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے کردار
دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعویدار تنظیمیں جو ہمیشہ بعض ممالک میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پریشانی کا اظہار کرتی ہیں، فلسطینیوں اور خطی عوام کی جان ومال پر صہیونی مجرموں کے قبضے اور وحشیانہ حملوں کے ستر سال بعد ، ابھی تک ان کے حقوق کے حصول کے لئے موثر اقدامات نہیں کرسکے ہیں اور صہیونی عالمی قانونی چارہ جویی سے بغیر کسی خوف فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کرکے خواتین اور بچوں کو قید کر رہے ہیں۔
لیکن جو بات یقینی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ تنظیمیں امریکہ جو صہیونی حکومت کا بنیادی حامی ہے، کے زیر انتظام ہیں فلسطینی عوام کو ایسی تنظیموں سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے۔
اسلامی ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کا کردار
اگرچہ بعض عرب ممالک نے صہیونیوں کے ساتھ خفیہ اور واضح تعلقات قائم کرنے کے ساتھ فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت اور قابض صہیونیوں سے نمٹنے میں تباہ کن کردار ادا کیا اور ابھی بھی اس رویے کو جاری رکھ رہے ہیں مگر بہت سارے اسلامی ممالک اور دنیا بھر کی آزادی پسند قومیں قابض صہیونیوں کے خلاف سخت اور متحد موقف کا مطالبہ کررہی ہیں۔
صیہونیوں کی لعنت کے خاتمے کا واحد راستہ بیداری اور مزاحمت کرنا ہے
صہیونیوں کی بدنام زندگی کے 70 سالہ تجربے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وہ جبر اور مزاحمت کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتے ہیں اگر فلسطینی جنگجوؤں کی شدید مزاحمت اور شہادت کے جذبے، دنیا کی آزاد اقوام کی حمایت نہیں تھا شاید برسوں پہلے ، فلسطینی سرزمین پر صہیونی تسلط مکمل ہو گیا تھا اور پناہ گزینوں سمیت لاکھوں فلسطینیوں کی امیدوں ، جن میں سے کچھ نے اپنے گھر کی چابیاں بھی رکھی ہوئی ہیں ،اپنے آبائی وطن واپس جانے سے مایوسی کا رخ کرنے لگیں۔
اس سلسلے میں فلسطینی عسکریت پسند گروپوں نے بار بار نام نہاد فلسطینی امن منصوبوں کی عدم تاثیر اور "صدی کے معاہدے" کی مخالفت پر زور دیا اور کہا ہے کہ فلسطینی عوام ، جو اپنے وطن کے دفاع میں انتفاضہ کرکے آج بھی مزاحمت کے ذریعے اپنے حق اور اپنی مقدس سرزمین پر قائم رہنے پر اصرار کر رہے ہیں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ