پاکستان کی قائد اعظم یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کی پروفیسر ڈاکٹر نازش محمود نے بدھ کے روز اسلام آباد میں IRNA کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ امریکیوں کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور جنگ کا ڈھول پیٹنے یا کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کا سوچنے کے بجائے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں امریکی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھتا ہے اور یقیناً ٹرمپ کے سامنے صیہونیوں کے پھدکنے اور ایران کے ساتھ فوجی تصادم پر اُکسانے سے بے خبر نہیں، لیکن آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ سفارت کاری اور تحمل ہے۔
نازش محمود نے تاکید کی کہ مغربی طاقتوں اور صیہونی (حکومت) نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے عراق، شام اور لیبیا کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایرانی حکمرانوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی سرحدوں، اپنے وطن اور ایٹمی اثاثوں کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی ہمیشہ مختلف بہانوں سے ایران کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے اور حکومت کی تبدیلی کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اگرچہ واشنگٹن ایران میں حکومت کی تبدیلی کی مخالفت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ایرانی عوام کے خلاف ان کی دشمنی، سخت پابندیاں عائد کرنا، اور مشرق وسطیٰ میں تہران کے مفادات پر حملہ کرنا وائٹ ہاؤس کے ایران کے خلاف منصوبہ بندی اور ایران کے خلاف سازشوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
نازش محمود نے کہا کہ علاقائی ممالک بالخصوص عرب حکمران جو اب ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے معمول پر آنے کے مثبت نتائج سے مستفید ہو رہے ہیں، ٹرمپ کی ایران مخالف دھمکیوں سے پریشان ہیں اور ان کی کوششیں خطے میں کسی بھی نئے تنازع کی مخالفت اور امریکیوں کو تہران کی ساتھ سفارت کاری کی ترغیب دینے کے لیے ہیں۔
انہوں نے غزہ میں غاصب صیہونی حکومت کی بربریت اور غزہ میں جنگ کو 17 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود صیہونیوں کی امریکہ کی اندھی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے برعکس (جو ہمیشہ فلسطینیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے اور انکے حق میں آواز بلند کرنے سے نہیں چوکتا)، بدقسمتی سے عرب حکمرانوں نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہانتک کہ اپنی عوام کو بھی صیہونی حکومت کے خلاف احتجاج کی اجازت نہیں دیتے۔
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ امریکیوں کو چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کریں اور کسی ایسے فیصلے سے گریز کریں جو جنگ کا باعث بنے اور ایران کی فوجی صلاحیتوں کو چیلنج کرے۔
انہوں نے تاکید کی کہ عمان میں بالواسطہ مذاکرات تہران اور واشنگٹن کے درمیان تمام اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا ایک مثالی موقع ہے، اور ٹرمپ کے متنازعہ اور غیر متوقع فیصلوں کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، یہ کہنا بہتر ہے کہ امریکیوں کو اس موقع کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔