لندن-ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومت کو عوامی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ : اسلامی جمہوریہ ایران میں جمہوریت اور انسانی حقوق، برطانیہ کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے کئي گنا بہتر ہے۔

وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے اس بات کا ذکر برطاینہ کے چینل-4 کے ساتھ ایک گفتگو میں کیا اور کہا: اگر ایک ساتھ ایران اور برطانیہ میں ایک رفرنڈم کیا جائے اور اس کا موضوع، حکومت کو عوامی حمایت ہو تو شک نہ کریں کہ اس رفرنڈم میں برطانیہ ہار جائے گا۔

برطانیہ کے چینل-4 کے رپورٹر نے ایران میں پارلیمانی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ایران کے 75 فیصد لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہيں ہے جس کا جواد دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ 75 فیصد کے اعداد و شمار آپ کے پاس کہاں سے آئے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے آج تک تقریبا ہر سال ایک بار انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ایران کے تمام لوگ شرکت کرتے ہيں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہم ایران میں عوام کو انتخابات میں شرکت کی ترغیب دلاتے ہيں لیکن عدم شرکت کی صورت میں تادیبی اقدام نہيں کرتے یہ ایسے حالات میں ہے کہ جب بہت سے مغربی ملکوں میں اگر کوئي انتخابات میں شرکت نہ کرے تو اسے وقتی طور پر سماجی سہولتوں سے محروم کئے جانے کی سزا دی جاتی ہے بلکہ کہیں اسے مالی جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی جڑیں ایرانی عوام کے عقائد اور کئي ہزار سالہ تمدن سے ملتی ہیں کہا کہ  ہم پورے یقین کے ساتھ کہتے ہيں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں جمہوریت اور انسانی حقوق، برطانیہ کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے کئي گنا بہتر ہے۔

وزیر خارجہ نے اپنی اس گفتگو کے ایک حصے میں غزہ کی جنگ کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کا ذکر کیا اور کہا : ہم غزہ میں نسل کشی کو روکے جانے کا خیر مقدم کرتے  ہیں۔ غزہ اور غرب اردن کے خلاف صیہونی حکومت کے حملے کے آغاز سے ہی ہم نے کھل کر یہ اعلان کیا تھا کہ جنگ، راہ حل نہيں ہے، فلسطینی عوام کا قتل عام جلد از جلد رکنا چاہیے اور اسی طرح فلسطینیوں کا محاصرہ بھی ختم ہونا چاہیے۔

انہوں نے زور دیا : ہم فلسطینی رہنماؤں اور حماس کی طرف سے کئے گئے ہر فیصلے کی حمایت کرتے ہيں۔ ہم اس بات کے پابند ہیں کہ ہر قسم کا معاہدہ فلسطینی دائرے میں ہونا چاہیے۔ ہم ہر اس معاہدے کا احترام کریں گے جسے فلسطینیوں اور واضح طور پر حماس کی حمایت حاصل ہو۔