ایڈمرل شہرام ایرانی نے اتوار کو مشہد میں ارنا کے ساتھ ایک گفتگو میں مزید کہا: در حقیقت امریکہ، کچھ ملکوں کو زبردستی اپنی طرف کھینچتا ہے اور چھوٹے اور کمزور ملک اس کے ساتھ ہونے پر مجبور ہو جاتے ہيں اس لئے اس قسم کے گروپ کو اتحاد تو نہيں کہا جا سکتا۔
بحریہ کے سربراہ نے علاقائی ملک خود ہی مغربی ایشیا کے سمندروں اور بحیرہ احمر میں سیکوریٹی یقینی بنانے کی توانائي رکھتے ہیں لیکن امریکی در اصل چیلنج پیدا کرنے کی کوشش میں ہيں تاکہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں ، اپنے مقاصد کی تکمیل کریں اور علاقے میں پڑے رہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگي کے لئے ضروری ہے کہ ان سے اس کی اپیل کی گئي ہو اور یہ اپیل یا علاقائي ملکوں کی طرف سے ہو یا پھر اقوام متحدہ کی طرف سے لیکن ابھی تک نہ تو علاقائي ملکوں نے امریکہ سے یہ مطالبہ کیا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ نے ایسی کوئي ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈالی ہے۔
انہوں نے کہا بارہا ایسا ہوا ہے کہ سمندر میں کسی کشتی پر بحری قزاقوں نے حملہ کیا اور امریکی جنگي جہاز نے بار بار اپیل کے بعد بھی اس کی مدد نہيں کی اس لئے امریکی دعوؤں کے بر خلاف علاقے میں ان کی موجودگي امن کا باعث نہيں بلکہ ان کی موجودگي سے علاقہ غیر محفوظ بن جاتا ہے۔
بحریہ کے سربراہ نے کہا: بحیرہ احمر میں کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے اور یمنی فوج اب تک صرف صیہونی حکومت سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بناتی تھی لیکن امریکہ بیچ میں کود پڑا تاکہ اس علاقے کو بھی غیر محفوظ بنا کر اپنی موجودگي کا جواز فراہم کیا جائے۔
واضح رہے خلیج خنزیر یا بے آف پِگز کیوبا کے جنوب میں کارائيب علاقے میں واقع ہے۔ کیوبا اور کارائيب کے دیگر ممالک کی امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست میامی سے سرحدیں ملتی ہیں اور اسی راستے سے منشیات امریکہ پہنچائي جاتی ہیں۔