رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر "زہرا ارشادی" نے پیر (28 فروری) کو شام سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کے کنونشن پر عمل درآمد کو سیاسی رنگ دینے کے سنگین اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم کو سیاسی طور پر متحرک بعض ممالک کے مقاصد کے حصول کے لیے غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ چند برسوں میں شام کو بعض رکن ممالک کی طرف سے ایسی کوششوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اعلی ایرانی خاتون سفارتکار نے کہا کہ ہم کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم کے ساتھ شام کے مسلسل تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں، جس میں 17 جنوری 2022 کو اس کی سرزمین میں کیمیائی ہتھیاروں اور متعلقہ پیداواری تنصیبات کی تباہی سے متعلق اس کی 98 ویں رپورٹ بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام کے کیمیائی معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاسوں کو رکن ممالک کے موقف کو دہرانے اور بے بنیاد الزامات پر بات کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے جب کہ شامی حکومت نے کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اہم پیش رفت کی ہے۔
ارشادی نے کہا کہ ہذا سلامتی کونسل کے لیے یہ دانشمندی ہے کہ وہ شام کے کیمیائی معاملے پر بات کرنے کے لیے ماہانہ اجلاس منعقد کرنے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ اس طرح کے اجلاس کنونشن کے مقاصد کے حصول کے بجائے کنونشن اور تنظیم کی صداقت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
خاتون ایرانی سفیر نے کہا کہ صرف دنیا بھر میں تمام کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے سے کہ ایسے ہتھیار نہ بنائے جائیں ہم اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مزید استعمال نہیں کیا جائے گا۔
ارشادی نے کہا یہ اس مقصد ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا ہے، کیونکہ امریکہ نے، واحد رکن ریاست کے طور پر، کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کے لیے دی گئی توسیع شدہ ڈیڈ لائن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ یک اور رکاوٹ کنونشن کی غیر عالمگیریت ہے۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر کنونشن میں شامل ہونا چاہیے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@